بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

معتکف کا قضاءِ حاجت کے لیے مسجد سے نکلنا، صابن سے ہاتھ دھونا اور وضو کرنا


سوال

اعتکاف میں قضاءِ حاجت کی نیت سے باہر نکلنے کے بعد اور قضاءِ حاجت سے فارغ ہونے کے بعد صابن سے ہاتھ دھو کر اور پھر وضو کر کے واپس لوٹ سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے معتکف کے لیے حالتِ  اعتکاف میں  طبعی اور  شرعی حاجت کے لیے نکلنا درست ہے ، لہذ ا صورتِ مسئولہ میں معتکف کا  قضاءِ  حاجت کے لیے  مسجد سے باہر جانا اور اس کے بعد وضو کرکے واپس لوٹنا درست ہے اور  وضو سے پہلے  صابن سے  ہاتھ  دھونے  کی بھی   گنجائش ہے ۔ البتہ  مسنون یا واجب اعتکاف میں صرف ہاتھ منہ دھونے  ، کلی کرنے یا دانت صاف کرنے کے لیے مسجد سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

'' (وحرم عليه) ۔۔۔۔۔ (الخروج إلا لحاجة الإنسان) طبيعية كبول وغائط وغسل لو احتلم ولا يمكنه الاغتسال في المسجد، كذا في النهر (أو) شرعية كعيد وأذان لو مؤذناً وباب المنارة خارج المسجد."

 (الدر المختار وحاشية ابن عابدين 2/ 444ط:سعید)

مراقي الفلاح میں ہے: 

"ولايخرج منه" أي من معتكفه فيشمل المرأة المعتكفة بمسجد بيتها "إلا لحاجة شرعية" كالجمعة والعيدين فيخرج في وقت يمكنه إدراكها مع صلاة سنتها قبلها ثم يعود وإن أتم اعتكافه في الجامع صح وكره "أو" حاجة "طبيعية" كالبول والغائط وإزالة نجاسة واغتسال من جنابة باحتلام لأنه عليه السلام كان لايخرج من معتكفه إلا لحاجة الإنسان "أو" حاجة "ضرورية كانهدام المسجد".

(حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح، باب الاعتكاف، ١/ ٧٠٢)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201518

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں