بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معتکف کا مائک پر صبح کی دعا پڑھنا


سوال

معتکف کو مائک پر پر دعاءِ  صبح پڑھنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر مائیک کی جگہ وغیرہ مسجد کی  حدود کے اندر ہے تو  معتکف کا  مسجد کی حدود  کے اندر رہ کر  اس  کے استعمال سے اعتکاف فاسد نہیں ہوگا،   اسی طرح اگر مائیک اذان خانے میں ہو اور اذان خانے کا راستہ مسجد کے اندر سے ہو تو بھی  اعتکاف فاسد نہیں ہوگا، البتہ اس صورت میں معتکف کو  اذان کے علاوہ کسی اور اعلان وغیرہ کے لیے وہاں  جانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور اگر مائیک  کی جگہ مسجد کی حدود سے باہر ہو، یا اذان خانے کا راستہ مسجد سے باہر سے ہو تو اس غرض سے مسجد  کی حدود سے باہر جانا جائز نہیں ہوگا۔ جانے کی صورت میں اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

مذکورہ  مسئلہ اعتکاف کے فاسد ہونے یا نہ ہونے کے حوالہ سے ہے، باقی مسجد کے بیرونی  مائیک میں صبح وشام کی دعا یا اذکار کا اہتمام  شرعًا ثابت نہیں  ہے، لہٰذا  نہ اس کی  ضرورت ہے، نہ ہی یہ درست ہے، اگر اس کو ضروری اور اذان کا حصہ سمجھا جانے لگے  تو بدعت اور ناجائز ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 445):

"(أو) شرعية كعيد وأذان لو مؤذناً وباب المنارة خارج المسجد .

(قوله: لو مؤذناً) هذا قول ضعيف، والصحيح أنه لا فرق بين المؤذن وغيره كما في البحر والإمداد ح، (قوله: وباب المنارة خارج المسجد) أما إذا كان داخله فكذلك بالأولى، قال في البحر: وصعود المئذنة إن كان بابها في المسجد لايفسد وإلا فكذلك في ظاهر الرواية اهـ ولو قال الشارح: وأذان ولو غير مؤذن وباب المنارة خارج المسجد لكان أولى ح. 

قلت: بل ظاهر البدائع أن الأذان أيضاً غير شرط فإنه قال: ولو صعد المنارة لم يفسد بلا خلاف وإن كان بابها خارج المسجد؛ لأنها منه؛ لأنه يمنع فيها من كل ما يمنع فيه من البول ونحوه فأشبه زاوية من زوايا المسجد اهـ لكن ينبغي فيما إذا كان بابها خارج المسجد أن يقيد بما إذا خرج للأذان؛ لأن المنارة وإن كانت من المسجد، لكن خروجه إلى بابها لا للأذان خروج منه بلا عذر، وبهذا لايكون كلام الشارح مفرعاً على الضعيف، ويكون قوله: وباب المنارة إلخ جملة حالية معتبرة المفهوم، فافهم". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201699

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں