بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

معتکف کا اعتکاف کے دوران مسجد میں لائیٹیں لگانا/ مسجد میں خوبصورتی کے لئے لائیٹیں اور فینسی ٹائیلیں لگانا


سوال

1۔ایک آدمی اعتکاف کی نیت سے مسجد میں بیٹھا ہواور مسجد  کی زیبائش  کے لیے لائٹیں لگاتاہے، جو چھوٹے چھوٹے بلب ہوتے ہیں ان کے لگانے میں دو تین راتیں لگا دیتاہے،اس کام سے اس کے اعتکاف میں کوئی فرق  آئے گا؟

2۔اور مسجد  میں  خوب صورتی  کے لیے لائیٹنگ کرنا جائز ہے؟

3۔اور مسجد میں فینسی ٹائیلیں لگوانا کیسا ہے؟ محراب کے اندر ڈیزائننگ وغیرہ؟

جواب

1۔اعتکاف کا  مقصد دنیوی امور سے  فارغ ہوکر محض اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوکر  شبِ قدر تلاش کرنا اور اس کی فضیلت کو حاصل کرنا ہے اور اپنے آپ کو اس جگہ میں محصور کرکے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرے کہ اے اللہ جب تک رمضان  المبارک کا مہینہ ختم نہ ہوجائے میں یہی رہوں گا، اس وجہ سے شدید ضرورت کے بغیر جائے اعتکاف سے باہر نکلنا اس عہد کے خلاف شمار ہوتا ہے،   لہذا اعتکاف کے دوران ہر ایسا کام ترک کردینا چاہیے جسے اعتکاف کا مقصد متاثر ہوجاتا  ہے ، اور  معتکف کو چاہیے کہ وہ نماز، تلاوت، ذکر و اذکار، تعلیم و تعلم اور دیگر عبادات میں اپنا زیادہ وقت گزارے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر  کوئی شخص حالت اعتکاف میں بغیر اجرت لئے محض اللہ کی رضا کی خاطر   مسجد کی لائیٹیں وغیرہ  لگاتا ہے تو یہ جائز ہے اور اگر اجرت لے کر  کام کررہا ہے تو اعتکاف کی حالت میں یہ مکروہ ہے ۔

المبسوط للسرخسي  میں ہے:

"وفي الاعتكاف تفريغ القلب عن أمور الدنيا وتسليم النفس إلى بارئها والتحصن بحصن حصين وملازمة بيت الله تعالى (قال) عطاء مثل المعتكف كمثل رجل له حاجة إلى عظيم فيجلس على بابه، ويقول: لا أبرح حتى تقضي حاجتي والمعتكف يجلس في بيت الله تعالى، ويقول: لا أبرح حتى يغفر لي فهو أشرف الأعمال إذا كان عن إخلاص." 

(باب الاعتكاف، ج:3، ص:115، ط:ادارة القرآن )

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"ويكره كل عمل من عمل الدنيا في المسجد، ولو جلس المعلم في المسجد والوراق يكتب، فإن كان المعلم يعلم للحسبة والوراق يكتب لنفسه فلا بأس به؛ لأنه قربة، وإن كان بالأجرة يكره إلا أن يقع لهما الضرورة، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس فى آداب المسجد، ج:5، ص:321، ط:مكتبه رشيديه)

2،3۔مسجد میں لائٹیں لگانے کا مقصد  نماز ،تلاوتِ قرآن ،اذکار  وغیرہ  کرنے والوں  کے لیے روشنی کا انتظام کرنا ہے کہ عبادات کی ادائیگی میں ان کو مشکل پیش  نہ آئے  ،البتہ بعض اوقات  مسجد کی تزیین و آرائش  کے لیے مسجد میں  کچھ اضافی لائیٹیں اور فانوس وغیرہ  لگائے جاتے ہیں ،یا فینسی ٹائیلیں لگوائی جاتی ہیں ،جن کے متعلق شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ شرعی  حدود  کے اندر ہوں اور قبلہ کی جانب میں نہ لگائی جائیں (کہ اس سے نماز کے دوران نمازیوں کےخشوع و خضوع میں فرق آسکتا ہے) اور  لگانے والا اپنے  ذاتی مال سے لگائے،یعنی مسجد کے  وقف مال سے نہ لگائے  تو  اس کی اجازت ہے ۔

 نیز محراب  میں  بھی  ایسی ڈیزائیننگ کرنا کہ جس سے نمازیوں کے خشوع و خضوع میں فرق آئے مکروہ ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولا بأس بنقشه خلا محرابه) فإنه يكره لأنه يلهي المصلي. ويكره التكلف بدقائق النقوش ونحوها خصوصا في جدار القبلة قاله الحلبي. وفي حظر المجتبى: وقيل يكره في المحراب دون السقف والمؤخر انتهى. وظاهره أن المراد بالمحراب جدار القبلة فليحفظ (بجص وماء ذهب) لو (بماله) الحلال (لا من مال الوقف) فإنه حرام (وضمن متوليه لو فعل) النقش أو البياض إلا إذا خيف طمع الظلمة فلا بأس به كافي، وإلا إذا كان لإحكام البناء(قوله ويكره التكلف إلخ) تخصيص لما في المتن من نفي البأس بالنقش، ولهذا قال في الفتح: وعندنا لا بأس به، ومحمل الكراهة التكلف بدقائق النقوش ونحوه خصوصا في المحراب اهـ فافهم (قوله ونحوها) كأخشاب ثمينة وبياض بنحو سبيداج اهـ ط (قوله وظاهره إلخ) أي ظاهر التعليل بأنه يلهي، وكذا إخراج السقف والمؤخر، فإن سببه عدم الإلهاء، فيفيد أن المكروه جدار القبلة بتمامه لأن علة الإلهاء لا تخص الإمام، بل بقية أهل الصف الأول كذلك، ولذا قال في الفتاوى الهندية: وكره بعض مشايخنا النقش على المحراب وحائط القبلة لأنه يشغل قلب المصلي اهـ ومثله يقال في حائط الميمنة أو الميسرة لأنه يلهي القريب منه (قوله لو بماله الحلال) قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله. اهـ. شرنبلالية (قوله إلا إذا خيف إلخ) أي بأن اجتمعت عنده أموال المسجد وهو مستغن عن العبارة، وإلا فيضمنها كما في القهستاني عن النهاية (قوله وتمامه في البحر) حيث قال: وقيدوا بالمسجد إذ نقش غيره موجب للضمان إلا إذا كان معدا للاستغلال تزيد الأجرة به فلا بأس به، وأرادوا من المسجد داخله فيفيد أن تزيين خارجه مكروه؛ وأما من مال الوقف فلا شك أنه لا يجوز للمتولي فعله مطلقا لعدم الفائدة فيه، خصوصا إذا قصد به حرمان أرباب الوظائف كما شاهدنا في زماننا".

(کتاب الصلوۃ، فروع اشتمال الصلاة على الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر، ج:1، ص:658، ط:ایچ ایم سعید)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"وكره بعض مشايخنا النقوش على المحراب وحائط القبلة؛ لأن ذلك يشغل قلب المصلي، وذكر الفقيه أبو جعفر - رحمه الله تعالى - في شرح السير الكبير أن نقش الحيطان مكروه قل ذلك أو كثر".

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن5/ 319، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں