بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متفرق سوالات کے جوابات


سوال

 کچھ سوالات ہیں ،جو آپ سے کرنا چاہتا ہوں، یہ بتانا تو نہیں چاہیے مگر میں دیوبند مسلک سے ہوں یہ اس لیے بتایا جو سوال کی نوعیت ہے اس وجہ سے ۔۔ 1:حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مراد ہے ، ہم اس  کے قائل ہیں ،قائل ہیں تو کس طرح کے قائل ،دوسرا کہ اگر یہ عقیدہ نہ رکھیں تو کیا ہم مسلمان نہیں ۔۔؟

2: وضو میں تین دفعہ ہاتھ دھونا ہے ،مگر زیادہ تر لوگ پا نی ہتھیلی میں رکھ صرف پانی رکھ رہے ہوتے ہیں حالاں کہ پانی نل کے نیچے رکھ کر تین دفعہ ہاتھ دھوسکتے ہیں ،کون سا طریقہ ٹھیک ہے ؟

3: تراویح کی بیس رکعت سنت ہے یا نفل ؟؟ نیت کیا کریں۔

4: اگر میرے پاس 90ہزار ہیں اور اس پر ایک سال نہیں گزرا ۔۔۔ اور میری نتخواہ 60 ہزار ہے تو مجھ پر زکات فرض ہے ؟

5: دوسرايه  کہ حدیث میں ہے سب لوگ کی بخشش ہوجائے گی، صرف  بغض اور کینہ پرور اور جو رشتہ توڑے ،مگر ہم نہ بغض رکھتے ہوں نہ کینہ بلکہ خود بات بھی کریں اور سامنے سے جواب نہ آئے تو یہ بھی اس زمرے میں آتا ہے ؟ کیا اس کینہ پرور اور رشتہ توڑنے والی حدیث ثابت ہوتی ہے ؟

6: اللہ سب گناہ معاف کردے گا مگر حقوق العباد معاف نہیں ، وہ بندوں کے ذمہ ہے ۔۔ اکثر ہم کسی کی برائی، غیبت کرتے ہیں تو کیا اللہ سے معافی مانگے تو وہ معاف ہوسکتا ہے یا جس کی برائی کی ہو اس سے مانگنا لازمی ہے ؟؟اگر ہم اللہ سے معافی مانگ لیں اور جس کی برائی کی ہو اس کے  لیے دعا ئے خیر کردیں تو تلافی ہوسکتی ہے ؟

جواب

  1. حیات النبی ﷺ بلکہ تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ  والسلام وشہداءِ کرام کی حیات کا عقیدہ نصوصِ  شرعیہ اور اجماع سے ثابت ہے اور اس کے خلاف منکرینِ  حیات النبی والانبیاء والشہداء کو مبتدع اور اہلِ سنت والجماعت سے خارج قرار دیتے ہیں، ان کی اقتدا  اور امامت کو مکروہِ تحریمی فرماتے ہیں۔

    اس کی تفصیل  یہ ہے کہ :

      حیات النبی ﷺ بلکہ حیات انبیاء علیہم السلام  اورشہداء تو نصوصِ قرآنی ، احادیث اور آثار کثیرہ سے ثابت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور شہداء کی ارواح کا تعلق وربط اپنے اجسادعنصریہ کے ساتھ حیات دنیویہ کی طرح ہے، بلکہ اس سے بھی قوی تر ہے،   فرق یہ ہے کہ دنیوی حیات کو ہم محسوس کرتے ہیں، اوربعدازوفات حیات کو ہم محسوس نہیں کرپاتے، لیکن نصوص وروایات سے جب معلوم ہوگیا ہے کہ وہ زندہ اور حیات ہیں، اگرچہ ہم محسوس نہیں کرتے ، لہٰذا ا س پر ایمان وعقیدہ ضروری اور واجب ہے۔

     حیات النبی،  شہداء اور دوسرے مؤمنین کی حیات کے مقابلہ میں جداگانہ حیثیت رکھتی ہے، چنانچہ بعض احکامِ شرعیہ میں وہ شہداء اور دوسرے مؤمنین سے بھی ممتاز ہیں۔

    1:  مثلاً :انبیاء  کی وفات کے بعد ان کی جائیداد میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ان کے اموال وارثوں میں تقسیم نہیں کیے جاتے۔ 

    2:  انبیاء علیہم السلام کی وفات کے بعد ازواجِ مطہرات سے کسی ایمان دار کا نکاح درست نہیں، جب کہ شہداء اور بعض دوسرے مؤمنین بھی حیات ہوتے ہیں،مگر شہداء اور دوسرے ایمان داروں کی ازواج سے  عدت  کے بعد دوسرے مسلمانوں کا نکاح درست ہے، ان کے مال میں وراثت بھی جاری ہوتی ہے۔

    3:  انبیاء علیہم السلام کے اجسام کو مٹی نہ کھاسکتی ہے ، نہ فناکرسکتی ہے، وہ اجسام ِدنیویہ کے ساتھ قبر میں محفوظ اور زندہ ہوتے ہیں ، یہی تمام علمائے اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ،  اور جماعت علمائے دیوبند کا بھی عقیدہ ہے۔

لہذا اگر کوئی شخص عقیدہ حیات النبی کا منکر ہووہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہے ۔

2۔وضو میں اعضائے وضو  تین بار دھونا سنت ہے، چاہے  تین بار دھونا چلو کے ذریعے پانی استعمال کرکے ہویا نلکے  کے ذریعہ اعضاء دھوئے جائیں۔دونوں طرح درست ہے ۔

3۔بیس رکعت تراویح سنتِ مؤکدہ ہے،  بیس رکعت تراویح پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہےاور تین دن تک خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام کو بیس رکعات تراویح پڑھائی۔

4۔واضح رہے کہ جس مسلمان عاقل بالغ شخص کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے  باون تولہ چاندی یاساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم ( جو حاجت اصلیہ سے زائد ہو )  یا مالِ تجارت موجود ہو یا ان چاروں چیزوں میں کسی بھی دو یا زائد کامجموعہ  ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت کے برابر پہنچتی ہو اور  وہ شخص مقروض بھی  نہ ہوتو ایسا شخص صاحبِ  نصاب شمار ہوتا ہے، اور اس مال پر سال گزرنے کی صورت میں اس پر  زکات واجب ہوتی ہے۔

پس اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے سات تولے سے کم سونا ہو، مثلًا ایک تولہ سونا ہونا،  اور اس کے علاوہ اس کی ملکیت میں نہ ہی چاندی ہو اور نہ ہی بنیادی اخراجات کے لیے درکار رقم سے زائد نقدی ہو ، نہ ہی مالِ تجارت ہو تو اس پر زکات واجب نہیں ہوگی۔

البتہ اگر سونے کے نصاب سے کم سونے کے ساتھ کچھ چاندی یا بنیادی اخراجات کے لیے درکار رقم کے علاوہ کچھ نقدی یا مالِ تجارت بھی ہو تو اس صورت میں سونے کی قیمت کو چاندی کی قیمت یا نقدی یا مالِ تجارت کے ساتھ ملایا جائے گا، اور اگر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) تک پہنچ جائے تو اس صورت میں کل مجموعہ مالیت کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد بطورِ   زکات  ادا کرنا واجب ہو گا؛لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے پاس 90 ہزار روپے موجود ہیں لیکن اس پر سال نہیں گزرا تو شرعا ًسائل پر زکات واجب نہیں ۔

5۔اگر کوئی شخص کسی سے بغض نہ رکھے بلکہ وہ خود ان سے بات کرے لیکن سامنے والا ان سے بات نہ کرے تو اس صورت میں ایسا شخص شرعا ًاس وعید کے زمرے میں نہیں آئے گا ۔

6۔جن لوگوں کی غیبت کی ہے، اگر انہیں غیبت کا علم نہ ہو تو ان سے معافی مانگنا شرعاً واجب نہیں، بلکہ ان کے لیے  استغفار کرنا کافی ہوگا۔  حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس کے لیے استغفار کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے‘‘۔

فتح الباری میں ہے :

"قلت: وإذا ثبت أنهم أحياء من حيث النقل؛ فإنه يقويه من حيث النظر كون الشهداء أحياء بنص القرآن، والأنبياء أفضل من الشهداء، ومن شواهد الحديث ما أخرجه أبو داود من حديث أبي هريرة، رفعه وقال فيه: وصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم، سنده صحيح، وأخرجه أبو الشيخ في كتاب الثواب بسند جيد بلفظ" من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا بلغته" وعند أبي داود والنسائي وصححه بن خزيمة وغيره عن أوس بن أوس، رفعه في فضل يوم الجمعة: فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي، قالوا يا رسول الله: وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت، قال: إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء۔"

(باب قولہ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم ،ج:۶،ص:۴۸۸،دارالمعرفۃ)

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: وتثليث الغسل) أي تكراره ثلاثا سنة، لكن الأولى فرض، والثنتان سنتان مؤكدتان على الصحيح، كذا في السراج،واختاره في المبسوط، الأولى أن يقال: إنهما سنة مؤكدة لا توصف الثانية وحدها أو الثالثة وحدها بالسنية إلا مع ملاحظة الأخرى، والسنة تكرار الغسلات المستوعيات لا الغرفات، وإن اكتفى بالمرة الواحدة قيل: يأثم؛ لأنه ترك السنة المشهورة، وقيل: لا يأثم؛ لأنه قد أتى بما أمره به ربه كذا في الظهيرية، ولا يخفى ترجيح الثاني لقولهم: والوعيد في الحديث لعدم رؤيته الثلاث سنة فلو كان الإثم يحصل بالترك لما احتيج إلى حمل الحديث على ما ذكروا، وقيل إن اعتاد يكره، وإلا فلا، واختاره في الخلاصة وقد ذكروا دليل السنة «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - توضأ مرة مرة وقال هذا وضوء من لا يقبل الله الصلاة إلا به وتوضأ مرتين مرتين وقال هذا وضوء من يضاعف الله له الأجر مرتين وتوضأ ثلاثا ثلاثا وقال هذا وضوئي ووضوء الأنبياء من قبلي فمن زاد على هذا أو نقص فقد تعدى وظلم»۔"

(کتاب الطہارۃ،ج:۱،ص:۲۴،دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے  :

"(‌التراويح ‌سنة) ‌مؤكدة لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعا.

(قوله سنة مؤكدة) صححه في الهداية وغيرها، وهو المروي عن أبي حنيفة. وذكر في الاختيار أن أبا يوسف سأل أبا حنيفة عنها وما فعله عمر، فقال: ‌التراويح ‌سنة ‌مؤكدة، ولم يتخرجه عمر من تلقاء نفسه، ولم يكن فيه مبتدعا؛ ولم يأمر به إلا عن أصل لديه وعهد من رسول الله - صلى الله عليه وسلم -. ولا ينافيه قول القدوري إنها مستحبة كما فهمه في الهداية عنه، لأنه إنما قال يستحب أن يجتمع الناس، وهو يدل على أن الاجتماع مستحب، وليس فيه دلالة على أن التراويح مستحبة، كذا في العناية. وفي شرح منية المصلي: وحكى غير واحد الإجماع على سنيتها، وتمامه في البحر."

(کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل،ج:۲،ص:۴۳،سعید)

در مختار  میں ہے :

"(وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين) لأن الكل للتجارة وضعا وجعلا (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة)."

(فتاوی شامی،کتاب الزکاۃ،باب زکات المال،ج:۲،ص:۳۰۳،سعید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"والظاهر أن هذا إذا ‌لم ‌تصل ‌الغيبة ‌إليه، وأما إذا وصلت إليه فلابد من الإستحلال بأن يخبر صاحبها بما قال فيه ويتحللها منه، فإن تعذر ذلك فليعزم على أنه متى وجده تحلل منه، فإذا حلله سقط عنه ما وجب عليه له من الحق، فإن عجز عن ذلك كله بأن كان صاحب الغيبة ميتا أو غائبا، فليستغفر الله تعالى، والمرجو من فضله وكرمه أن يرضي خصمه من إحسانه، فإنه جواد كريم رؤوف رحيم."

(کتاب الآداب ،باب حفظ اللسان ،ج:۷،ص:۳۰۵۷،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں