بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

متفرق سوالات


سوال

آپ سے چند دینی مسائل کے بارے میں رہنمائی درکار ہے برائے مہربانی جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں،سوالات درج ذیل ہیں۔1۔ نبی اور رسول میں کیا فرق ہے ؟2۔ زناء بالجبر کے لیے سزا کیا ہے ؟3۔ اگر چار گواہ نہ مل سکیں توکیا قرائن اور میڈیکل شواہد کی بنیاد پر مجرم کو سزائے موت دیجا سکتی ہے ؟4۔ شادی میں "کف" یا برابری کی شرط کیوں رکھی گئی ہے ؟ کیا یہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم سے ثابت ہے ؟5۔ شرعی داڑھی کی مقدار کتنی ہے ؟کیا تھوڑی کے نیچے اور گردن کے اوپر جوبال ہوتے ہیں وہ کاٹے جاسکتے ہیں اور اگر بال گالوں سے بڑھ کر آنکھوں کے نیچے اور ناک کے قریب پہنچ جائیں تو ان کا کاٹنا جائز ہے ؟عرفِ عام میں داڑھی کا خط کرنا کسے کہتے ہیں ؟ اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟6۔ تفسیر القرآن کے ضمن میں کون سی تفسیر تفصیلی مطالعہ کے لیے کارآمد ہے ؟برائے مہربانی جواب عطا فرماکر شکریہ کا موقع دیں ۔

جواب

نبی عام ہے اور رسول خاص ہے، نبی جسے نبوت عطا کی گئی ہو ساتھ میں کتاب دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو، جبکہ رسول وہ کہلاتے ہیں جنہیں نبوت کے ساتھ کتاب بھی دی گئی ہو۔ 2۔ زناء بالجبر میں جو عورت یا مرد واقعتہ مجبور ہو کر مرتکب گناہ ہوا ہو اس پر حد جاری نہیں ہو گی، البتہ تو بہ و استغفار کر نا ضروری ہے۔اگر کوئی شخص مجبور کرنے کا مرتکب ہوا ہو تو اس پر تعزیر ہے جس کا نفاذ و اجراء اسلامی حکومت کی صوابدید پر مبنی ہے۔ 3۔ حد میں چار گواہوں کی گواہی لا زمی ہے بصورت دیگر شبہے کی وجہ سے حد جاری نہیں ہوگی۔دیگر قرائن ، مشاہدےاور معائنے معتبر نہیں ہیں کیونکہ شبہ پھر بھی باقی رہتا ہے۔ 4۔ الخبیثات للخبیثین والطیبٰت للطیبین، سے کفو، کا مسئلہ ثابت ہو تا ہے، متعدد احادیث مبارکہ سے اس مسئلے کی تا ئید ہو تی ہے۔ کیونکہ اس میں بہت بڑی معاشرتی مصلحت ہے گو کہ غیر کفو میں نکاح کرنے سے نکاح منعقد بھی ہو جاتا ہے۔ 5۔ شرعی ڈاڑھی کا مفہوم یہ ہے کہ جبڑوں پر اگنے والے بالوں کا ایک مشت کے برابر ہونا بایں معنی گلے اور گال کے بالائی حصے پر اگنے والے بال ڈاڑھی کے حکم میں نہیں وہ صاف کیے جاسکتے ہیں، جبڑے کی حدود کی رعایت کرتے ہوئے اضافی بالوں کو ہٹانا ہی خط بنانا کہلا تاہے یہ شرعا جائز ہے۔ 6۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ کی تفسیر معارف القرآن کا رآمد ہے اسی طرح مولانا محمد ادریس کاندھلوی صاحب رحمہ اللہ کی معارف القرآن بھی مفید ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200602

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں