بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متعدد وطن اصلی ہونا


سوال

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا تعلق با جوڑسے ہے، اور ہماری جائیدادیں بھی وہاں  پر موجود ہیں  ، لیکن اب ہم مستقل طور پر کراچی میں رہائش پزیر ہیں ۔ہم نے سکونت کراچی میں اختیار کرلی ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں جب ہم باجوڑ جائیں گے تو کیاہم مسافر شمار ہوں گے ؟ اگر کبھی غمی یا شادی کے موقع پر پندرہ دن سے کم کے لیے جانا پڑ جائے تو سفر کے احکام لاگو ہوں گے یا نہیں ؟ اور نماز قصر والی پڑھیں گے یا مکمل ؟ جبکہ وہاں پر کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ مسافر شمار ہوں گے اور بعض فرماتے ہیں کہ مسافرشمار نہیں ہوں گے ؟

جواب

اگر کوئی شخص اپنے وطنِ اصلی  کے علاوہ  دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور وہیں مستقل  طور پر  اہل وعیال کے ساتھ عمر گزارنے کی نیت کرلے، اور پہلی جگہ پر رہنے کا ارادہ نہ ہو تو    اس کا پہلا وطن اصلی ختم ہوجاتا ہے،  اور دوسری جگہ اس کا وطن اصلی بن جاتا ہے، اور  اگر پہلی جگہ  پر بھی موسم کے لحاظ سے آکر رہنے کا ارادہ ہو یا  وطنِ اصلی سے  اہل وعیال کو تو دوسری جگہ  منتقل کرلیا، لیکن پہلے وطن سے بھی تعلق ہے اس کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں ہے، مثلاًاس کی زمینیں اور مکانات وغیرہ وہاں موجود ہیں تو دونوں  جگہیں اس کے وطن اصلی شمار ہوں گے ، جب وہاں جائے گا تو مقیم ہوگا اور جب یہاں آئے گا تب بھی مقیم ہوگا، اور درمیان کے راستے میں مسافر ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ نے باجوڑ سے مستقل طور پر تعلق ختم کرکے اس کی وطنیت کو ختم نہیں کیا، بلکہ  کراچی میں رہنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی نیت ہے کہ باجوڑ کا آبائی علاقہ بھی ہمارا وطن ہے، تو  وہ وہاں مکمل نماز پڑھیں گے، اگرچہ وہاں پندرہ دن سے کم کے لیے ہی کیوں نہ گئے ہوں، لیکن اگر  آپ نے یہ نیت کی ہے کہ اب باجوڑ ہمارا وطن اصلی نہیں رہا  اور اہل وعیال سمیت کراچی ہجرت کرلی ہےاور اب وہاں رہنے کا ارادہ نہیں ہے( اگرچہ زمینیں موجود ہیں)،تو اب یہ  پندرہ دن سے کم کے لیے باجوڑ جائیں گے تومسافر ہوں گے اور قصر نمازپڑھیں گے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وفي المحيط: ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة، قيل: البصرة لا تبقى وطناً له؛ لأنها إنما كانت وطناً بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطناً له، وقيل: تبقى وطناً له؛ لأنها كانت وطناً له بالأهل والدار جميعاً، فبزوال أحدهما لايرتفع الوطن، كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر. ا هـ

 وفي المجتبى: نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار، ثم قال: وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم، فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر".

 ( باب صلوۃ المسافر ج2 /ص 147 ط: ماجدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں