بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا تمام کفاروں کے لیے ایک کفارہ کافی ہے؟


سوال

زید کو ایک بری عادت تھی، اس لئے اس نے  نذر مانی تھی کہ  آئندہ جتنی مرتبہ اس بری عادت میں مبتلا ہوگا، ہر مرتبہ کے مقابلے میں بیس رکعت نماز پڑھے گا،اس کے بعد متعدد مرتبہ اس  میں مبتلا ہو گیا۔ اب اگر کفارہ  دے کر اس نذر سے عہدہ بر آ ہونا چاہے تو ایک ہی  کفارہ کافی ہوگا یا متعدد کفارے دینا پڑیں  گے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں زید(  ناذر) نے چوں کہ ہر مرتبہ اپنے آپ کومخصوص گناہ سے روکنے کے لیے نذر مانی ہے ،لہذاہر مرتبہ وه مخصوص گناہ کرنے کی صورت میں اُسے  ناذر  کو دوباتوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہے یا تو اپنے اوپر لازم کردہ 20 رکعت پڑھے، یاقسم کا کفارہ( دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے یا دس مسکینوں کو عرف کے مطابق کپڑے پہنائےاور اگر اس کی طاقت نہیں تو لگاتار تین روزے رکھے) دے۔

اور  کفارات میں  چونکہ تداخل ہوتا ہے،لہذا اگر صورتِ مسئولہ میں ناذر (زید)نے باربار وہ گناہ کیا اور اب تک ایک کفارہ بھی ادا نہیں کیا تو تمام کفاروں کے لیے ایک ہی کفارہ کافی ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وقد روي عن محمد - رحمه الله تعالى - قال: ‌إن ‌علق ‌النذر ‌بشرط يريد كونه كقوله إن شفى الله مريضي أو رد غائبي لا يخرج عنه بالكفارة كذا في المبسوط،ويلزمه عين ما سمى كذا في فتاوى قاضي خان، وإن علق بشرط لا يريد كونه كدخول الدار أو نحوه يتخير بين الكفارة وبين عين ما التزمه وروي أن أبا حنيفة - رحمه الله تعالى - رجع إلى التخيير أيضا وبهذا كان يفتي إسماعيل الزاهد قال: - رضي الله تعالى عنه - وهو اختياري أيضا كذا في المبسوط".

(كتاب الأيمان، الباب الثاني، الفصل الثاني في الكفارة، ج:2، ص:65، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين)وفي البغية: كفارات الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع. وقال شهاب الأئمة: هذا قول محمد. قال صاحب الأصل: هو المختار عندي. اهـ. مقدسي، ومثله في القهستاني عن المنية".

(كتاب الأيمان، مطلب تتعدد الكفارة لتعدد اليمين، ج:3، ص:714، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307200020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں