بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متعدد کفارہ لازم ہونے کا حکم


سوال

اگر روزے میں ایسا فعل سرزد ہوجائے جس سے کفاره لازم آتا ہے اوروه فعل کئی بار کیا ہو  اور تعداد بھی یاد نہیں تو کتنے کفارے ادا کرے گا ؟

جواب

رمضان المبارک کے اس ادا روزے  میں  قصدًا  کھانے،  پینے  یا بیوی سے صحبت کرنے سے کفارہ لازم ہوتا ہے جس روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے کرلی ہو۔اگر یہ فعل کسی شخص سے ایک سے زائد مرتبہ ہوجائیں تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ:

۱) اگر ایک سے زائد روزوں میں  کھانے یا پینے سے متعدد کفارے  لازم ہوئے ہوں ، چاہے ایک رمضان کے متعدد روزے ہوں یا متعدد رمضانوں کے متعدد روزے ہوں تو ان سب کے بدلہ میں ایک کفارہ ادا کرنا کافی ہوجائے گا   بشرطیکہ پہلے روزہ کا کفارہ ادا نہ کیا ہو،  مثلًا اگر ۲۰۲۰ کے رمضان میں ایک روزہ کھانے کی وجہ سے توڑا اور ۲۰۲۱ کی رمضان میں ایک روزہ کھانے کے ذریعہ توڑا اور پہلے والے کا کفارہ بھی ادا نہ کیا تو اب ۲۰۲۱ میں ایک کفارہ ادا کرنے سے دونوں کا کفارہ ادا ہوجائے گا،  اور  اگر ۲۰۲۰ والے کا کفارہ پہلے ادا کردیا تھا تو اب ۲۰۲۱ والے کے لیے دوبارہ کفارہ ادا کرنا ہوگا۔

۲) اگر ایک سے زائد روزوں میں بیوی سے صحبت کرنے کی وجہ سے کفارہ لازم ہوا ہو تو اگر ایک ہی سال کے رمضان میں متعدد مرتبہ صحبت کی ہے تو ایک کفارہ کافی ہوجائے گا بشرطیکہ  پہلے والے روزہ کا کفارہ ادا نہ کیا ہو اور اگر الگ الگ رمضان میں صحبت کرنے کی وجہ سے کفارہ لازم ہو اہے تو  پھر الگ الگ کفارہ ادا کرنا ہوگا ،ایک کفارہ دونوں کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ 

سائل کو چوں کہ تعداد  یاد نہیں تو کھانے پینے سے توڑنے کی صورت میں چوں کہ ایک ہی کفارہ ہے اس لیے تعداد کے یاد نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،  البتہ اگر بیوی سے صحبت کر کے  روزہ توڑا اور متعدد رمضانوں میں ایسا ہوا ہے تو سائل کو  ایک محتاط اندازہ  لگانا ہوگا کہ کتنے رمضانوں میں ایسا ہوا اور پھر اس اندازہ  کے مطابق  کفارہ ادا کرنا ہوگا۔

روزے کے کفارے کی تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

روزے کا کفارہ کیا ہے؟

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

«ولو جامع في رمضان متعمدًا مرارًا بأن جامع في يوم ثم جامع في اليوم الثاني ثم في الثالث ولم يكفر فعليه لجميع ذلك كله كفارة واحدة عندنا، وعند الشافعي عليه لكل يوم كفارة، ولو جامع في يوم ثم كفر ثم جامع في يوم آخر فعليه كفارة أخرى في ظاهر الرواية، وروى زفر عن أبي حنيفة أنه ليس عليه كفارة أخرى، ولو جامع في رمضانين ولم يكفر للأول فعليه لكل جماع كفارة في ظاهر الرواية.»

(کتاب الصوم  فصل حکم فساد الصوم ج نمبر ۲ ص نمبر ۱۰۱،دار الکتب العلمیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

«ولو تكرر فطره ولم يكفر للأول يكفيه واحدة ولو في رمضانين عند محمد وعليه الاعتماد بزازية ومجتبى وغيرهما واختار بعضهم للفتوى أن الفطر بغير الجماع تداخل وإلا لا»

(قوله: ولم يكفر للأول) أما لو كفر فعليه أخرى في ظاهر الرواية للعلم بأن الزجر لم يحصل بالأولى بحر (قوله: وعليه الاعتماد) نقله في البحر عن الأسرار ونقل قبله عن الجوهرة لو جامع في رمضانين فعليه كفارتان وإن لم يكفر للأولى في ظاهر الرواية وهو الصحيح. اهـ.

قلت: فقد اختلف الترجيح كما ترى ويتقوى الثاني بأنه ظاهر الرواية (قوله: إن الفطر) إن شرطية ح (قوله: وإلا لا) أي وإن كان الفطر المتكرر في يومين بجماع لا تتداخل الكفارة، وإن لم يكفر للأول لعظم الجناية ولذا أوجب الشافعي الكفارة به دون الأكل والشرب.

(کتاب الصوم باب ما یفسد الصوم و ما لا یفسدہ ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۱۲،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں