بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معتدۃ الوفاۃ عدت کہاں گزارے؟ / معتدۃ الوفاۃ بقدرِ ضرورت کسبِ معاش کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی مجاز ہے


سوال

ہمارے ایک دوست جن کا ابھی 21 جون کو برین ہیمرج اور فالج ہونے سے  دماغ کا آپریشن کیا گیا، جسمیں انکا انتقال ہوا،  ان کی عمر 36 سال تھی، مرحوم اپنے  والدین  اور ایک بھائی کے ساتھ جالنہ شہر میں کرائے کے مکان میں رہتا تھا،  گھر کے حالات معاشی اعتبار سے بہت خراب ہیں،  مرحوم کی والدہ کی طبیعت ہمیشہ خراب رہتی ہے،  والد کے دو آپریشن ہو چکے ہیں، مرحوم بڑے بیٹے تھے، اور چھوٹا بیٹا ایک آفس میں کنٹریکٹ بیس پر ملازمت کرتا ہے، جِس سے وہ سارے گھر کی اور اپنی بیوی کی ساری ذمےداری اُٹھا رہا ہے،  مرحوم بے روزگار تھے ان کی ایک بیوہ اور ایک لڑکا ہے  جو تقریباً 3 سے 4 سال کا ہے، مرحوم کی بیوہ اپنے میکے میں ہی رہتی ہے، اور وہیں پر ایک کال سینٹر میں جاب کرتی ہے،  جب اس کے شوہر کی طبیعت کا معلوم ہوا تب وہ حیدرآباد سے آئی اور 2 سے 3 دن ہی رہی،  پھر جب آپریشن کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوئی تو مرحوم کی بیوی نے اپنی جاب سے 3 لاکھ کا لون ادا کرنے  کا ذمہ لیا، اب انتقال ہونے کے بعد اُن کی بیوہ عدت کہاں گزارے؟ کیا وہ اپنے والدین کے گھر عدت گزار سکتی ہے؟   سسرال میں پہلے ہی خراب حالات ہیں، نان  نفقہ میں بہت پریشانی ہوگی، اور اگر وہ اپنے والدین کے گھر  عدت گزار سکتی ہے تو کیا وہ جاب بھی کر سکتی ہے لون ادا کرنے کے لیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر نے اپنی زندگی میں بیوی کو اس کے میکے میں  رکھا ہوا تھا، اور باہمی رضامندی سے بیوی اپنے میکے میں رہائش پذیر تھی، تو اب شوہر کے انتقال کے بعد میکے میں عدت گزارے،  البتہ اگر وہ  شوہر کے انتقال کے وقت شوہر کے گھر میں تھی اور شوہر کا گھر میکے سے  مسافتِ سفر پر ہےتو  اب سفر کرکے میکے جانے کی بجائے شوہر کے گھر عدت گزارے، لیکن اگر  وہاں غربت و افلاس ہے اور شوہر کے گھر والے سائلہ کو دورانِ عدت اپنے ساتھ رکھنے کے لیے تیار نہ ہوں تو میکے میں جاکر عدت گزارنے کی گنجائش ہے۔

نیز  بیوہ کے  پاس اگر اتنا مال ہے جو  دورانِ عدت اس کے نان نفقہ کے لیے کافی ہوسکے تو جاب کے لیے  دورانِ عدت گھر سے باہر نکلنا اس کے لیے جائز نہیں ہے ، اگر اس کے پاس نان نفقہ کا بندو بست نہیں ہے اور کوئی اس کی کفالت کرنے کے لیے بھی تیار نہ ہو  تو وہ بقدرِ ضرورت  پردے کے اہتمام کے ساتھ گھر سے باہر جا سکتی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه.

(قوله: ‌في ‌بيت ‌وجبت ‌فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة."

(کتاب الطلاق، باب العدة، فصل فی الحداد، ج:3، ص:536، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌أبانها، ‌أو ‌مات ‌عنها في سفر) ولو في مصر (وليس بينها) وبين مصرها مدة سفر رجعت ولو بين مصرها مدته وبين مقصدها أقل مضت."

(کتاب الطلاق، باب العدة، فصل فی الحداد، ج:3، ص:538، ط:سعید)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"وإن كان ‌بينها ‌وبين ‌مقصدها ‌دون مسيرة سفر وبينها وبين منزلها مسيرة سفر مضت إلى مقصدها ولم ترجع لأنها إذا مضت لا تكون منشئة سفرا ولا سائرة في العدة مسيرة سفر، وإذا رجعت تكون منشئة سفرا؛ فلهذا مضت إلى مقصودها."

(کتاب الطلاق، باب العدة و خروج المراۃ من بیتہا، ج:6، ص:35، دار المعرفہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ومعتدة موت تخرج في الجديدين وتبيت) أكثر الليل (في منزلها) لأن نفقتها عليها فتحتاج للخروج، حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها الخروج.

(قوله: في الجديدين) أي الليل والنهار فإنهما يتجددان دائما ،  (قوله: لأن نفقتها عليها) أي لم تسقط باختيارها، بخلاف المختلعة كما مر وهذا بيان للفرق بين معتدة الموت ومعتدة الطلاق،  قال في الهداية: وأما المتوفى عنها زوجها فلأنه لا نفقة لها فتحتاج إلى الخروج نهارا لطلب المعاش وقد يمتد إلى أن يهجم الليل ولا كذلك المطلقة لأن النفقة دارة عليها من مال زوجها.

قال في الفتح: والحاصل أن ‌مدار ‌حل ‌خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره، فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها."

(کتاب الطلاق، باب العدة، فصل فی الحداد، ج:3، ص:536، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102174

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں