بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متعدد لوگوں کے لیے ایصالِ ثواب کرنے سے کیا ثواب میں کمی واقع ہوتی ہے؟


سوال

اگر ہم قرآن کسی ایک شخص  کے لیے پڑھیں تو  کیا اس کا ثواب صرف اسی کو ملتا ہے؟  اگر ہم دوسرے مرحومین کا نام لیں گے تو کیا ثواب تقسیم ہوکر کم ہو جائے گا؟

جواب

جس طرح  قرآنِ مجید کا ثواب ایک شخص کو بھیجا جا سکتا ہے، اسی طرح متعدد مرحومین  کو بھی ثواب ہدیہ کیا جا سکتا ہے،مختلف افراد کو ایصالِ ثواب کرنے کی وجہ سے ثواب میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہ ہو گی۔

لہذا اگر کوئی آدمی قرآن شریف کی تلاوت کرتا ہے اور اس کا ثواب ایک یا ایک سے زائد  کو بھیجتا ہے تو  ہر  ایک کو اس کا ثواب پورا پورا ملے گا اور عمل کرنے والا بھی اپنے پورے اجر کا حق دار ہو گا، اور افضل یہ ہے کہ ایصالِ ثواب کرتے ہوئے تمام مؤمنین اور مؤمنات کی نیت کی جائے۔

شعب الایمان للبیھقی میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله ﷺ من حج عن والدیه بعد وفاتهما کتب له عتقاً من النار، وکان للمحجوج عنهما أجر حجة تامة من غیر أن ینقص من أجور هما شیئاً". ( شعب الإیمان ، ٦/ ٢٠٤، رقم: ٧٩١٢، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)

یعنی  حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ:  جو شخص اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کی طرف سے حج کرتا ہے، تو اس کے لیے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہے،  اور جن دونوں (والدین) کی طرف سے حج کیا گیا ہے انہیں کامل حج کا ثواب ملتاہے، نہ حج کرنے والے کی اجر میں کوئی کمی کی جاتی ہے اور نہ ہی جن کی طرف سے حج کیا گیا ہے ان کے اجر میں کوئی کمی کی جاتی ہے۔

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: إذا تصدق بصدقة تطوعاً أن یجعلها عن أبویه فیکون لهما أجرها، ولاینتقص من أجره شیئاً". رواه الطبراني في الأوسط. وفیه خارجة بن مصعب الضبي وهو ضعیف". (مجمع الزوائد، باب الصدقة علی المیت، ۳ / ۱۳۸، ۱۳۹، رقم: ٤۷٦۹، ط: دار الكتب العلمية بيرت)

یعنی کوئی شخص نفلی صدقہ والدین کی طرف سے کرے تو  ان دونوں کو ثواب ملے گا، اور صدقہ کرنے والے کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے

"قلت :لکن سئل ابن حجر المکي عما لو قرأ لأهل المقبرة الفاتحة: هل یقسم الثواب بینهم أو یصل لکل منهم مثل ثواب ذلك کاملًا؟ فأجاب بأنه أفتی جمع بالثاني، وهو اللائق بسعة الفضل". (رد المحتار، باب صلاة الجنازة، مطلب في القراءة للمیت و إهداء ثوابها له :244/2 ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

" الأفضل لمن یتصدّق نفلًا أن ینوي لجمیع المؤمنین و المؤمنات؛ لأنّها تصل إلیهم، ولاینقص من أجره شيءٍ اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة". (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاة، باب الجنائز، مطلب في القراء ة للمیت وإهداء ثوابها له، (2/243) ط:ایچ ایم سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109203044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں