بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متعدد لباس رکھنا/ پہننا


سوال

 زیادہ کپڑے اور جوتے خریدنا اسلام کی روشنی میں کیسا ہے؟غیر ضروری اشیاء وغیرہ خریدنا کیسا ہے؟

جواب

اگر اللہ نے مالی وسعت دی ہے اور وہ شخص متعدد یا قیمتی لباس وغیرہ رکھتا ہے/پہنتا ہے،اسے ریا ونمود ، خود پسندی اور دوسروں کی تحقیر کے جذبات سے بچتے ہوئے استعمال کرتا ہے تو شرعا جائز ہے،  حدیثِ مبارک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو نعمت سے نوازیں تو وہ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ بندے پر اس کی نعمت کا اثر بھی ہو۔ یعنی جسے اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہو اُسے چاہیے کہ شکر کے جذبات اور اعتدال کے ساتھ اللہ کی دی ہوئی نعمت کو استعمال کرے،بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نماز اور دیگر عبادات میں مستقل الگ اور قیمتی لباس کا استعمال اور بعض تابعین ، تبع تابعین رحمہم اللہ سے روزانہ ہر درسِ حدیث سے پہلے نیا اور قیمتی لباس استعمال کرنا اور پھر اسے صدقہ کرنا منقول ہے۔ 

 شریعتِ مطہرہ نے مسلمانوں کےلیے صرف ضرورت یاحاجت ہی کا دروازہ نہیں کھولا، بلکہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو اس اصطلاحی مفہوم کے دائرے سے بالکل باہر  ہیں، لیکن پھر بھی اس کو جائز ومباح رکھا ہےاور اس کو استعمال میں لانا کسی طرح اسراف نہیں کہلاتا۔ ضرورت وحاجت اصطلاحی طور پر ان اُمور کو کہا جاتا ہے جن کے فقدان کی وجہ سے انسان کی جان وعضو تلف ہو یا وہ شدید حرج وتکلیف میں مبتلا ہوجائے اور ایسی چیزیں بہت کم ہیں۔لہذا ضرورت اور حاجت کے علاوہ عمومی منفعت اورزیب وزینت  کی اشیاء جب کہ اس میں فاسد غرض نہ ہو  کوبھی شریعت نے مباح قرار دیا ہے اور اس کا استعمال شرعا اسراف کے زمرے میں نہیں آتا۔

البتہ اگر ان اشیاء کی خریداری اور اس کے  استعمال میں کوئی دینی یا دنیوی معتد بہ فائدہ ملحوظ نہ ہو،تو شرعا وہ اسراف  ہے،اور اگر خرید کر اس کو استعمال کی نوبت نہیں آتی یہاں تک کہ وہ رکھے رکھے خراب ہوجاتاہے تو شرعا یہ اس کا ضیاع ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي مجموع النوازل سئل عن الزينة والتجمل في الدنيا قال «خرج رسول الله - صلى الله عليه وآله وسلم - ذات يوم وعليه رداء قيمته ألف درهم وربما قام إلى الصلاة وعليه رداء قيمته أربعة آلاف درهم، ودخل رجل من أصحابه يوما وعليه رداء خز فقال - عليه السلام - إن الله تعالى - إذا أنعم على عبد نعمة أحب أن يرى أثر نعمته عليه» وأبو حنيفة - رحمه الله تعالى - كان يرتدي برداء قيمته أربعمائة دينار، كذا في الذخيرة، لبس الثياب الجميلة مباح إذا لم يتكبر وتفسيره أن يكون معها كما كان قبلها كذا في السراجية."

(کتاب الکراہیۃ،ج5،ص333،ط؛دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں