بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متبرع کو رجوع کا حق نہیں


سوال

ہم ویب سائٹس بنانے کا کام یعنی ویب ڈیزائننگ کرتے ہیں، اور اگر کسی کو یہ کام سیکھنا ہو تو اسے بغیر معاوضے کے سکھاتے ہیں، اس شرط پر کہ وہ کام سیکھ کر ہمارے پاس ہی کام کرے گا، جس سے  اس کا بھی روزگار لگے گا اور ہمیں بھی کام کرنے والے اچھے لوگ میسر آسکیں گے، کام سیکھنے کے دوران ہم سیکھنے والے سے فیس نہیں لیتے (جبکہ اگر وہ کسی ادارے سے سیکھیں تو ماہانہ کم از کم دس ہزار فیس ادا کرنی ہوتی ہے) بلکہ انہیں آنے جانے کا ماہانہ 5ہزار خرچہ دیتے ہیں اور یہ بات انہیں پہلے ہی بتائی جا چکی ہوتی ہے کہ ہم آپ کو جو بغیر فیس کے سکھا رہے ہیں اور جو پیسے دے رہے ہیں یہ آپ پر بطور انویسٹمنٹ کے ہیں تاکہ جب آپ کام سیکھ لیں اور ہمارے پاس کام کریں تو آپ کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی فائدہ ہو، اسی طرح ہمارے پاس ایک لڑکا کام سیکھنے آیا اور چھ ماہ تک ہم سے وہ کام سیکھتا رہا اور اس دوران ہر ماہ اسے خرچہ بھی ہم دیتے رہے اور یہ بات اسے ہم بتا چکے تھے کہ تمہیں بغیر کسی معاوضے کے سکھانا اور یہ پانچ ہزار ماہانہ دینا یہ آپ پر ہماری انویسٹمنٹ ہے، کوئی معاوضہ نہیں ہے کیونکہ آپ یہاں ملازمت نہیں کررہے، کام سیکھ رہے ہیں اور بعد ازاں آپ ہمارے پاس ہی کام کریں گے، یہ تمام باتیں انہیں بتائی جا چکی تھی اب جب کہ چھ مہینے ہو گئے تو انہوں نے آفس یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یہ کام کرنے سے میرے والد مجھے منع کررہے ہیں،  درج ذیل دونوں  سوالات کے مفصل علیحدہ علیحدہ جوابات عنایت فرمائیں:

1- کیا ہم اس لڑکے سے چھ ماہ تک  مشروط طور پر دیے گئے 30 ہزار کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟ اور کیا اس لڑکے پر ان پیسوں کا ہمیں واپس کرنا لازم ہوگا ؟

2-ہمارے ہاں سیکھنے کے اس چھ ماہ کے عرصہ میں ہمارے ایک ملازم نے اسے کام سکھایا تاکہ وہ سیکھ کر اپنے ساتھ ساتھ ہمیں بھی نفع پہنچائے لیکن اس نے وعدہ کے خلاف کرکے کام ہی چھوڑ دیا تو کیا اس صورت میں،اسے کام سکھانے والا ہمارا ملازم یا ہم اس سے چھ ماہ کام سکھانے کی اجرت مثل (جوکہ عموما ہمارے ہاں اداروں میں دی جاتی ہے اس کی فیس کم از کم دس ہزار روپے ماہانہ ہوتی ہے) کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟ اور کیا اس پر اس اجرت مثل کا ادا کرنا واجب ہوگا؟ کیونکہ اس نے فیس نہ لینےکی وجہ (ہمارے پاس کم کرنے کی شرط) کو خود ہی ختم کردیا، دونوں جزئیات کے نمبروار مفصل جوابات عنایت فرمائیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو ۔

جواب

1-واضح رہے کہ  کسی کو کام سیکھانا اس شرط پر کہ کام سیکھ کر ہمارےپاس ہی کام کریگا یہ شرط صحیح نہیں ، تاہم کام سیکھانے کے بدلے پہلے سے کوئی فیس مقرر  کرلینا درست ہے، اجرت طے کئے بغیر  کام سیکھانے کے بعد اجرت کا مطالبہ درست نہیں ،لہذا  صورت مسئولہ میں    آپ نےجو ان پر خرچہ کیایہ  تبرع(احسان) ہے،اور  اس کی  واپسی کا  مطالبہ کرنا جائز نہیں ،نیز اس لڑکے پر وہ رقم  واپس کرنا لازم نہیں۔

2-چھ ماہ میں سائل  کے ملازم نے  مذکورہ لڑکے   کو جو کام سکھایا تھا یہ بھی تبرع (احسان) ہے ، لہذا  سائل  یا  سائل کے ملازم  ان سے  اجرت  مثل  کا مطالبہ کرنا جائز نہیں، نہ ہی اس لڑکے پر اجرت مثل ادا کرنا واجب ہے۔

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية  میں ہے:

"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(كتاب المداينات: ج:2 ،ص:226، ط: دار المعرفة)

فيض الباري على صحيح البخاري   میں ہے:

"ففي «القنية»: المتبرع لا يرجع فيما تبرع به، فباب الرجوع لا يمشي في التبرعات، بخلاف الهبة."

(كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها، باب هبة الواحد للجماعة:ج: 4 ،ص:58، ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (‌يفسد ‌الإجارة ‌الشرط) قال في المحيط كل جهالة تفسد البيع تفسد الإجارة؛ لأن الجهالة المتمكنة في البدل أو المبدل تفضي إلى المنازعة، وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين يفضي إلى المنازعة فيفسد الإجارة."

(‌‌كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة،ج:8،ص19،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101487

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں