بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متعدد بیویوں میں برابری کا حکم


سوال

میرے شوہر کی دو بیویاں ہیں،وہ اپنی پہلی بیوی اور اس کے بچوں کے ساتھ رہتا ہے ،میرے لیے کوئی باری مقرر نہیں کی ہے ،بلکہ میرے پاس دن میں صرف 10 منٹ کے لیے آتے ہیں اور سازوسامان دے کر چلے جاتے ہیں،باقی  میرےازدواجی حقوق ادا  نہیں کرتے ،اب پوچھنا یہ ہے کہ کیامیرے شوہر کے لیے ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟

ازراہ کرم شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کے شوہر کا سائلہ کے ساتھ مذکورہ رویہ رکھنا جائز نہیں ہے،سائلہ کے شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیویوں کے درمیان ، شب گزاری ،کھانے پینے ، نان ونفقہ اور تحفہ وہدیہ  میں برابری کرے،بصورت دیگر سخت گناہ گار ہوگا۔

الدر مع الرد میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب۔۔۔۔وفی الرد:قال في البحر: قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، وهكذا ذكر الولوالجي ۔۔۔۔(قوله والصحبة) كان المناسب ذكره عقب قوله في البيتوتة لأن الصحبة أي المعاشرة والمؤانسة ثمرة البيتوتة. ففي الخانية: ومما يجب على الأزواج للنساء: العدل والتسوية بينهن فيما يملكه، والبيتوتة عندهما للصحبة، والمؤانسة لا فيما لا يملكه وهو الحب والجماع۔۔۔ (قوله بل يستحب) أي ما ذكر من المجامعة ح. أما المحبة فهي ميل القلب وهو لا يملك. قال في الفتح: والمستحب أن يسوي بينهن في جميع الاستمتاعات من الوطء والقبلة، وكذا بين الجواري وأمهات الأولاد ليحصنهن عن الاشتهاء للزنا والميل إلى الفاحشة، ولا يجب شيء لأنه تعالى قال {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة أو ما ملكت أيمانكم} [النساء: 3] فأفاد أن العدل بينهن ليس واجبا۔۔۔الخ."

(کتاب النکاح،باب القسم بین الزوجات،3/201،ط:سعید)

ہندیہ میں ہے:

"(الباب الحادي عشر في القسم) ومما يجب على الأزواج للنساء العدل والتسوية بينهن فيما يملكه والبيتوتة عندها للصحبة والمؤانسة لا فيما لا يملك وهو الحب والجماع كذا في فتاوى قاضي خان. والعبد كالحر في هذا كذا في الخلاصة. فيسوي بين الجديدة والقديمة والبكر والثيب والصحيحة والمريضة والرتقاء والمجنونة التي لا يخاف منها والحائض والنفساء والحامل والحائل والصغيرة التي يمكن وطؤها والمحرمة والمولى منها والمظاهر منها كذا في التبيين."

(کتاب النکاح، الباب الحادي عشر في القسم،1/340،ط:دارالفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں