بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مستحق کی شادی میں،کھانے کا خرچ زکات سے اٹھانا


سوال

سوال یہ ہے کہ مستحق یتیم بچوں اور بچیوں کی شادی میں زکات کے پیسوں سے کھانے کا خرچ (XYZ)کی  زکات کی دی  ہوئی رقم  سے پورا کرنا درست ہے یا نہیں ؟اگر نہیں تو درست طریقہ کیا ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ زکات کی رقم سے  بغیر تملیک کئے مستحقین کی شادی میں ان کی طرف سے کھانا کھلانے سے زکات ادا نہیں ہو گی ، البتہ زکات کی رقم ان کے ہاتھ میں دے دی جائے ،اس کے بعد وہ کھانے کا انتظام کرنے والے وکیل کو دے دیں اور وہ اس  رقم کو کھانے میں خرچ کریں اور وہ واپس وکیل کو مذکورہ کاروائی کے لیے  دے دیں ،تو اس صورت میں شادی کے کھانے کا خرچہ زکات سے زکالنا درست ہوگا۔

 اس کا صحیح  طریقہ یہ ہے کہ  مستحق کی شادی میں خود زکات کی رقم خرچنے کے بجائے ،زکات کی رقم  مالک بنا کراس کے حوالے کر دی جائے ،( جس مستحق فردکوزکوٰة دی جارہی ہےاگراس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونایاساڑھے باون تولہ چاندی کی مقدار نقدیت نہ ہوتوایسا فرد مستحق زکوٰة ہےاس کوزکوٰة دینےسےزکوٰة اداء ہوجائےگی۔) زکوٰة وصول کرلینےکےبعد اسے اختیارہےچاہےشادی پرخرچ کرےیادیگرضروریات پراس پرپابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ زکوٰة کی رقم سے اگروہ شادی کےلیے کھاناتیارکرتا ہے تواس کھانے سےوہ لوگ بھی کھاسکتے ہیں جو مستحق زکوٰة نہیں کیونکہ غریب جب زکوٰة کی رقم وصول کرلیتاہےتوپھروہ زکوٰة نہیں رہتی۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے۔

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)لعدم التمليك وهو الركن."

(کتاب الزکوٰۃ،باب المصرف،ج:2،ص393،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"( دفع بتحر ) لمن يظنه مصرفًا ( فبان أنه عبده أو مكاتبه أو حربي ولو مستأمنًا أعادها ) لما مر."

(کتاب الزکاۃ،2/353 ،ط:سعید)

"المحيط البرهاني في الفقه النعماني " میں ہے :

’’ في «العيون» : رجل يعول أخته أو أخاه أو عمه، فأراد أن يعطيه الزكاة إن لم يكن فرض عليه القاضي نفقته جاز؛ لأن التمليك من مولاه بصفة القربة يتحقق من كل وجه، فيتحقق ركن الزكاة، وإن كان القاضي فرض عليه نفقته، إن لم يحتسب المؤدى إليه نفقته جاز أيضاً، وإن كان يحتسب لا يجوز؛ لأن هذا أداء الواجب بواجب آخر. وقال في «الحاوي» : قال أبو بكر الإسكاف: لو دفع الزكاة إلى أخته، وهي في عياله جاز، وكذلك لو فرض الحاكم عليه نفقتها جاز من الزكاة، والنفقة جميعاً، قال به، وقيل: لم يجز بعد الفرض. وفي «المنتقى» عن الحسن بن زياد عن أبي حنيفة: رجل فرض عليه القاضي نفقة قرابته، وأعطاه من زكاة ماله جاز. وكذلك إذا نوى أن تصير  النفقة التي ينفق عليهم بأمر القاضي من زكاته أجزأه، وذكر عن الحسن بن مالك عن أبي يوسف: إن نوى بما يعطيهم ما فرض القاضي عليه لم يجز، ووجهه ما ذكرنا أن هذا أداء الواجب بواجب آخر، ووجه ما روي عن أبي حنيفة: أن بعد فرض القاضي ما تغيرت ماهية النفقة، فإنها صلة شرعاً، فلا يمنع وقوعها عن الزكاة، ألا ترى أن على أصله من اشترى أباه ناوياً عن كفارة يمنه أجزأه عن الكفارة، وهذا الشراء واجب صلة للقرابة ثم وجوبه بجهة الصلة لم يمنع وقوعه بجهة الكفارة، كذا ههنا‘‘.

(کتاب الزکاۃ،‌‌الفصل الثامن في المسائل المتعلقة بمن توضع الزكاة فيه،2/ 287 ،ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں