بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مستقل مدرسے میں عشاء کی نماز پڑھنے کا حکم


سوال

 میرے محلے میں ایک حفظ کا  مدرسہ ہے، وہاں پر مسجد ہونے کے باوجود وہ لوگ عشاء کی نماز  مسجد کی جماعت کے کچھ دیر بعد  پڑھتے ہیں، کیونکہ حفظ میں اصل یاد کرنے کا وقت  مغرب سے عشاء تک ہے، اس وجہ سے مدرسے کےتمام  اساتذہ اور طلبہ عشاء کی نماز مسجد کی جماعت کے  کچھ دیر بعد مدرسے میں  پڑھتے ہیں،   لیکن فرض نماز تو  مسجد میں باجماعت پڑھنا واجب ہے، توکیا ان حضرات کو مسجد کی جماعت  چھوڑنے کا گناہ ملے گا؟ 

جواب

واضح رہے کہ  شرعی اعذار کے بغیر مسجد کی جماعت ترک کرنا   شرعًا جائز  نہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں شعبۂ حفظ  کے تعلیمی اوقات کی وجہ سے مسجد کی  جماعت چھوڑ کرمستقل عشاء کی نماز مدرسےمیں پڑھنے کی ترتیب بنانا درست نہیں،کیونکہ اس میں مسجد کو ترک کرنے کا گناہ بھی ہے اور احادیث میں مسجد کی جماعت چھوڑنے  پر   سخت وعید ذکر کی گئی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے، بلکہ ایسے لوگوں  کے گھروں کو جلانے کی خواہش کا بھی اظہار فرمایاتھا،اس لیےمدرسے کے منتظمین کو چاہیےکہ مسجد کے جماعت کے  اوقات پڑھائی کو  موقوف کردیں یا کوئی  ایسی ترتیب بنائیں کہ مدرسے کے تمام اساتذہ و طلبہ مسجد میں  جاکر  باجماعت نماز ادا کرسکیں  ،البتہ اگر صرف نابالغ بچوں کو نماز کی تربیت کرانے کی غرض سے یا کسی دوسرے عذر کی بناپر مدرسہ ہی میں جماعت کرائی جاتی ہے تو اس کی گنجائش ہوگی ،اس میں بالغ شامل نہ ہوں۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "صلاة ‌الرجل ‌في ‌بيته ‌بصلاة ‌وصلاته ‌في ‌مسجد ‌القبائل ‌بخمس ‌وعشرين صلاة وصلاته في المسجد الذي يجمع فيه بخسمائة صلاة وصلاته في المسجد الأقصى بخمسين ألف صلاة وصلاته في مسجدي بخمسين ألف صلاة وصلاته في المسجد الحرام بمائة ألف صلاة."

(مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الصلوٰۃ،باب المساجدومواضع الصلوٰۃ،الفصل الثالث،ج:۱،ص:۲۳۴،ط:المکتب الإسلامی)

ترجمہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک ہی  نماز کے برابر اور محلہ کی مسجد میں اس پچیس نمازوں کے برابر اور اس مسجد میں جہاں جمع ہوتا ہے ( جامع مسجدمیں) اس کی نماز پانچ سو نمازوں کے برابر اور مسجد ِ اقصیٰ ( یعنی بیت المقدس میں ) اور میری مسجد ( مسجد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ) اس کی نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجدِ حرام میں اس کی نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔‘‘

(مظاہر حق جدید،ج:۱،ص:۵۰۸،ط:دارالاشاعت کراچی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فتسن أو تجب ... على ‌الرجال ‌العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج ... ’’قوله من غير حرج‘‘قيد لكونها سنة مؤكدة أو واجبة، فبالحرج يرتفع الإثم ويرخص في تركها ولكنه يفوته الأفضل بدليل أنه عليه الصلاة والسلام  قال لابن أم مكتوم الأعمى لما استأذنه في الصلاة في بيته:’’ ما أجد لك رخصة."

(کتاب الصلوٰۃ، باب الإمامہ،ج:۱،ص:۵۵۴،ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101760

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں