بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک طلاقِ رجعی کا حکم


سوال

 ایک آدمی اپنی شادی شدہ زندگی سے ناخوش اور پریشان ہوکر اپنے من میں سوچتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ میں بچہ ہی پیدا نہ کرتا یا نہ کروں گا، پھر سوچتے ہوئے کہ اس میں تو اس لڑکی کی حق تلفی ہوگی ،زبان سے یہ کہے کہ اس کی ضرورت نہیں، میں طلاق دیتا ہوں، نیت: مستقبل میں ایسے نوبت آنے کی ہو ،جب کہ اس کا موجودہ ارادہ کوئی طلاق دینے کا نہ ہو ،بطور آپشن اور اختیار کے یہ بات کر رہا ہو ،کہ میں طلاق دیتا ہو ں،پھر تو حق تلفی نہ ہوگی ،وہ خود   اپنے آپ سے بات کررہا ہے،اس کا مقصد اپنے طلاق کا اختیار ظاہر کرنا تھا ،تو کیا اس طرح طلاق کہنے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے "طلاق دیتا ہوں "کے الفاظ سےبیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہو گئی ہے،اس طلاق کے بعد عدت یعنی مکمل تین ماہواریاں( اگر حمل نہ ہو اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک) گزرنے سے پہلے تک سائل کو  رجوع کرنے کا اختیار  ہے، اگر سائل نےعدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلیا تو نکاح  برقرار رہے گا، لیکن اگرسائل نے عدت گزرنے سے پہلے رجوع نہیں کیا تو عدت کی مدت پوری ہوتے ہی نکاح ختم ہو جائے گا پھر رجوع کرنا جائز نہیں ہوگا،تاہم عدت گزرنے کے بعد  اگر دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو دوبارہ نئے سرے سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب وقبول کے ساتھ نکاح کرنا ہو گا، اور دونوں صورتوں میں آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و هو كأنت طالق و مطلقة و طلقتك و تقع واحدة رجعية و إن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئًا، كذا في الكنز".

(كتاب الطلاق، ج:1، ص:354، ط:مکتبہ رشيديہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101565

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں