بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مستقبل کے لفظ سے طلاق کو معلق کرنے کے بعد طلاق کا اقرار کرنے کا حکم اور رجوع کا طریقہ


سوال

ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ"اگر تم میرے گھر سے نکلی تو میں آپ کو طلاق دے دوں گا"اس کے بعد وہ عورت خود اپنی مرضی سے تو گھر سے نہیں نکلی ،لیکن اس کے ماں باپ آئے اور اسے زبردستی شوہر کے گھر سے اپنے گھر لے گئے ، پھر چند دن بعد شوہر اپنے کسی رشتہ دار کے گھر گیا، وہاں اس سے پوچھا گیا کہ : بیوی کو ساتھ کیوں نہیں لائے ، دو ، تین مرتبہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ "میں نے اسے طلاق دے دی ہے" اب سوال یہ ہے کہ اس عورت پر طلاق واقع ہوئی یا نہیں ، اگر ہوئی تو کتنی ؟

میاں بیوی پشیمان ہیں ، دوبارہ ایک دوسرے سے نباہ چاہتے ہیں ، اس لیے اس کے رجوع کی تفصیل بھی تحریر فر ماکر اجرِ عظیم کے مستحق ٹھہریں۔

وضاحت:شوہر نے اس سے پہلے کبھی کوئی طلاق نہیں دی، مذکورہ بات کو دو سے تین ہفتے کا عرصہ گزر گیاہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃمذکورہ شخص نے یہ الفاظ استعمال کیے کہ "اگر تم میرے گھر سے نکلی تو میں آپ کو طلاق دے دوں گا" تو مذکورہ الفاظ وعدہ طلاق ہیں ، طلاق دینے کا مستقبل میں وعدہ اور دھمکی ہے ، اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ، البتہ بعد میں رشتہ داروں کے پوچھنے پر شوہر نے مذکورہ بالا طلاق کے بارے میں بتاتے ہوئے یہ کہا کہ "میں نے اسے طلاق دے دی ہے"تو اس جملہ کے کہنے کی وجہ سے مذکورہ شخص کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی ہے، بیوی پر عدت  تین ماہو اریاں حمل نہ ہونے کی صورت میں اور اگر حمل ہو تو وضع حمل تک لازم ہے۔

چوں کہ اس بات کو دو سے تین ہفتے کا عرصہ گزراہے ، میاں بیوی دونوں اگر دوبارہ ساتھ رہنے پر راضی ہوں تو عدت کے دوران رجوع کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں ، اس صورت میں تجدیدِ نکاح کی ضرورت نہیں ہوگی ، تاہم اگر شوہر نے رجوع نہیں کیا اور عدت گزر گئی تو دوبارہ ساتھ رہنے کی لیے  نئے مہراور نئے ایجاب وقبول  کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرنا ضروری ہوگا، باقی رجوع کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شوہر دو گواہوں کی موجودگی میں یوں کہے کہ "میں نے رجوع کیا "تو اس سے رجوع ہوجائے گا، اور رجوع یا تجدیدِ نکاح دونوں صورتوں میں شوہر کو آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة."

(ردالمحتار علی الدرالمختار ،کتاب الطلاق،ج:۳،ص:۲۳۶،ط:سعید)

حاشیہ طحطاوی میں ہے:

"الاقرار بالطلاق کاذباًیقع بہ قضاءً لا دیانہً۔"

(حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختا ر ، باب الصریح ، ج:۲،ص:۱۱۳،ط:رشیدیہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين وهي على ‌ضربين: سني وبدعي (فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة"

(كتاب الطلاق،الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به ......،ج:۱، ص:۴۶۸،ط: رشیدیہ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307100270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں