بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مستقبل کے الفاظ/چھوڑ دیا سے طلاق کا حکم


سوال

میری سالی نےمیری بیوی کو میری اجازت کےبغیر موبائل دیا،جس پر میں نےاپنی سالی کو ڈانٹا،پھر ایک دن میری بیٹی میری سالی سےفون پربات کررہی تھی میری بیوی گھرپرنہیں تھی،میں نے بیٹی سےپوچھا کس سےبات کررہی ہوتواس نے بتایا کہ میں خالہ (میری سالی)سےبات کررہی ہوں،تو پھر میں نےفون لیااور اپنی سالی کو ڈانٹااورکہاتم ایساکیوں کررہی ہو،میری عدمِ موجودگی میں میری بیٹی کو کیوں فون کرتی ہو،میں نےسالی سےکہا"اگر میں تمہاری بہن کو طلاق دےدوں تو پھروہی سےاپنی بہن کو لےجانا"پھر میں دیکھ لوں گاکہ تم کتنےبڑےبنتےہو،اس کےدوگھنٹےبعدمیری سالی میری بیوی کو گھرلائی اوربیوی نے مجھ سےپوچھا کہ آپ نے مجھےچھوڑدیاہے؟تو میں نےکہا،"ہاں چھوڑدیاہے"اب تم اپنی بہن کویہاں سےلےجاؤاورجاؤ"،اور میری طلاق کی کوئی نیت نہ تھی،اب میرےسسرال والے میری بیوی کو نہیں چھوڑ رہے،کہہ رہے ہیں کہ پہلے فتوی لاؤ،اب سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں طلاق ہوئی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپنی بیوی کےبارےتین جملےکہےہیں،(1)اگرمیں تمہاری بہن کو طلاق دےدوں تو پھر اس کو وہی سے لےجانا،(2)بیوی کے سوال کہ آپ نے مجھے چھوڑدیاہے،کے جواب میں کہا"ہاں میں نےچھوڑدیاہے"،(3)اپنی بہن کو یہاں سےلےجاؤ اورجاؤ،ان میں سےپہلا جملہ کہ اگر میں تمہاری بہن کو طلاق دے دوں ،طلاق نہیں، بلکہ  آئندہ مستقبل میں طلاق دینے کی دھمکی کے ہیں،لہذااس جملہ سے طلاق واقع نہیں ہوئی،اورتیسراجملہ کہ" اپنی بہن کو یہاں سے لےجاؤاورجاؤ"،اس سے سائل کی نیت طلاق کی نہیں تھی تو اس جملہ سے بھی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

 اور دوسرا جملہ جو بیوی کے یہ کہنے پر کہ: "آپ نے مجھے چھوڑدیا ہے؟" کے جواب میں کہاکہ:"ہاں میں نے چھوڑدیا"اس سے سائل کی بیوی پر  ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی ہے، شوہر اگر عدت  (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو،حمل کی صورت می بچہ کی پیدائش تک)  کےدوران رجوع کرلے گا تو نکاح برقرار رہے گا، اگر عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی نکاح ختم ہوجائے گا، اس کے بعد اگر دونوں میاں بیوی باہمی رضامندی سے ساتھ رہنا چاہیں تو  نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں  تجدیدِ نکاح کرنا ہوگا، اور دونوں صورتوں میں شوہر کے آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام."

(كتاب الطلاق ،38/1،ط:دار المعرفۃ)

 فتاوی شامی میں ہے:

"فإن سرحتك كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح، فإذا قال: " رهاكردم " أي سرحتك، يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضاً، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت."

(کتاب الطلاق،باب الکنایات،299/3،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا."

(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق   ،180/3،ط:دارالکتب العلمیۃ)

البحرالرائق میں ہے:

"قوله: اخرجي اذهبي قومي) لحاجة أو لأني طلقتك قيد باقتصاره على اذهبي لأنه لو قال: اذهبي فبيعي ثوبك لا يقع، وإن نوى."

(کتاب الطلاق،باب الکنایات فی الطلاق،326/3،ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101759

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں