بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مستحق وکیل کا زکات کی رقم اپنی ذات پر خرچ کرنے کا حکم


سوال

 زید ایک اچھے امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، لیکن حالات ایسے آ گئے کہ زید مستحقِ زکوۃ ہو گیا ہے، زید کو شرم آتی ہے اور تکلیف ہوتی ہے کہ وہ رشتہ داروں یا لوگوں کو بتائے کہ وہ مستحقِ زکوۃ ہے،لہٰذا اس کی زکوۃ سے مدد کی جائے۔

1: اب کیا زید رشتہ داروں یا لوگوں کو یہ کہہ کر زکوۃ وصول کر سکتا ہے کہ ”میں ایک شخص کو جانتا ہوں جو مستحقِ زکوۃ ہے، آپ مجھے زکوۃ دے دیں، میں اس شخص کو آپ کی زکوۃ پہنچا دوں گا“اور یہ کہہ کر زید لوگوں سے زکوۃ وصول کر لے اور اپنے استعمال میں لے آئے، کیا زید ایسا کر سکتا ہے؟ اس طرح رشتہ داروں کو،اور  لوگوں کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ وہ مستحقِ زکوۃ شخص زید خود ہے۔

2: اگر زید ایسا نہیں کر سکتا تو پھر ایسا طریقہ، اورجملے بتا دیں کہ زید زکوۃ بھی وصول کر لے اور رشتہ داروں کو،اور دوسرے لوگوں کو پتا بھی نہ چلے اور زید شرمندگی کی تکلیف سے بھی بچ جائے۔

جواب

1:  صورتِ مسئولہ میں اگر   زيدکے رشتے دار  زید کےذکر کردہ الفاظ”میں ایک شخص کو جانتا ہوں جو مستحقِ زکوۃ ہے، آپ مجھے زکوۃ دے دیں، میں اس شخص کو آپ کی زکوۃ پہنچا دوں گا“کی بناءپر زید کو  زکات کی رقم دے دیں،   تو ایسی صورت میں زید پر لازم ہوگا کہ وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے  مستحق شخص کوزکات کی  رقم دے، چاہے وہ مستحق زیدكي اپنی اولاد یا بیوی ہی کیوں نہ ہو،خود زید کے لیے محتاج ہونے کی وجہ سے اس رقم کا استعمال جائزنہیں ہے۔

2: اگر زکات  کی رقم دینے والے نے زید کویہ کہا ہو کہ "جو چاہے کرو"یا" جسے چاہو دو"،یا "جہاں چاہو اپنی مرضی کے مطابق  خرچ کرو" تو  ایسی صورت میں زید کے لیے اس رقم کا استعمال اپنی ذات کے لیے جائز ہوگا۔ 

یا زید لوگوں سے یہ کہے کہ ایک آدمی ضرورت مند ہے اس کے لیے زکات سے تعاون کی ضرورت ہے،اس پر اگر لوگ زکات دے دیں تو زید وہ رقم اپنی ذات پر خرچ کرسکے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع بتحر لمن یظنه مصرفًا․․ وفي الرد: أما لو تحری فدفع لمن ظنه غیر مصرف أوشک ولم یتحر لم یجز حتی یظھر أنه مصرف فیجزیه في الصحیح، خلافاً لمن ظن عدمه وتمامه في النهر."

(كتاب الزكاة،‌‌ باب مصرف الزكاة والعشر،352/2،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"ويشترط ‌أن ‌يكون ‌الصرف (تمليكا) لا إباحة... لأن الحيلة أن ‌يتصدق ‌على ‌الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم."

(كتاب الزكاة،‌باب مصرف الزكاة والعشر،344،45/2،ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وللوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن ‌يمسك ‌لنفسه شيئا اهـ.

إلا إذا قال ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه كذا في الولوالجية."

(كتاب الزكاة،‌‌شروط أداء الزكاة،369/2،ط:دار الکتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں