بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مستحق قاری صاحب کے لیے تراویح میں اجرت لینا


سوال

تراویح میں اجرت لینا جائز ہے اگر وہ قاری صاحب مستحق بھی ہو؟

جواب

 تراویح میں قرآنِ مجید سناکر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں ہے، لینے اور دینے والے  دونوں گناہ گار ہوں گے اورثواب بھی نہیں ملے گا، اگرچہ  حافظ صاحب مستحقِ  زکوٰۃ ہوں، اس حالت میں بہترہےکہ جتنی سورتیں یاد ہوں، مختصر سورتوں   سے تراویح پڑھادی جائے، اس سےبھی تراویح کی سنت ادا ہوجائےگی۔

البتہ اگر حافظ کو رمضان المبارک کے لیے نائب امام بنادیا جائے اور اس کے ذمے ایک یا دو نمازیں  سپرد کردی جائیں اور اس خدمت کے عوض تنخواہ کے عنوان سے اسے کچھ دے دیا جائے (خواہ وہ زیاہ ہو یا کم) تو اس کے لینے اور دینے کی گنجائش ہوگی ۔

اسی طرح اگر حافظ صاحب کو  بلاتعیین کچھ دے دیاجائےاورنہ دینے پرکوئی شکایت بھی نہ ہو اور نہ وہاں بطورِ اجرت لینے دینے کا عرف ورواج ہوتو یہ صورت اجرت سےخارج اورحدِجوازمیں داخل ہوسکتی ہے۔

(کفایت المفتی ،3/،410۔395)

اور اگر تراویح سنانے والا اس مسجد کا ہی امام ہو اور انتظامیہ/کمیٹی رمضان المبارک میں الاؤنس یا اضافی مشاہرے کی صورت میں امام کا تعاون کردے تو یہ تراویح کی اجرت میں داخل نہیں ہوگا۔

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 73):

"وأن القراءة لشيء من الدنيا لاتجوز، وأن الآخذ والمعطي آثمان؛ لأن ذلك يشبه الاستئجار على القراءة، ونفس الاستئجار عليها لايجوز، فكذا ما أشبهه كما صرح بذلك في عدة كتب من مشاهير كتب المذهب؛ وإنما أفتى المتأخرون بجواز الاستئجار على تعليم القرآن لا على التلاوة وعللوه بالضرورة وهي خوف ضياع القرآن، ولا ضرورة في جواز الاستئجار على التلاوة كما أوضحت ذلك في شفاء العليل".

(فتاوی ر حیمہ 6/235، ط: دارالاشاعت۔ فتاوی دارالعلوم دیوبند  4/246، ط: دارالاشاعت)

باقی اگر  حافظ صاحب  مستحق  زکوٰۃ ہیں  تو  ان کی اجرت طے کیے بغیر   زکوٰۃ کی مد  میں سے  تعاون کرنا جائز ہے، خواہ وہ تراویح پڑھائیں یا نہ پڑھائیں، نیز اگر ختم والے دن ہی زکوٰۃ  کی مد سے تعاون کرنے میں اجرت کا شبہ ہو تو اس دن تعاون سے اجتناب کرنا چاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں