السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،سوال یہ ہے کہ میں سرکاری سکول میں استاد ہوں، میری تنخواہ42000 ہے، اس میں سے 2000 روپے میزان بینک میں ماہانہ کٹوتی کفالت کی مد میں ہوتی ہے جو کہ میں نے خود کروائی تھی جو 10سال مدت کے لیے ہے 10 سال بعد یہ رقم جتنی بھی بنے گی وہ اکٹھے ملے گی۔ جمع شدہ رقم تنخواہ کے علاوہ ایک علیحدہ اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے جسکی کوئی چیک بک بھی نہیں ہوتی کہ بوقت ضرورت انسان رقم نکال سکے مگر آپ اس رقم کو صرف آن لائن چیک کر سکتے ہیں کہ اس میں کتنے پیسے جمع ہیں اب میرے اس کفالہ اکاؤنٹ میں ایک لاکھ سے زائد رقم ہے جو دس سالہ مدت پوری ہونے پر ملے گی۔ میری ایک بیٹی پیدائشی بیمار ہے جس کے علاج پر خاطر خواہ رقم خرچ ہوتی ہے اور مذکورہ بالا تنخواہ میں میرا مہینے کا خرچہ پورا نہیں ہوتابلکہ اکثر قرض لینا پڑتا ہے۔ اب میری بہن زکوٰۃ ادا کرنا چاہتی ہے جو مجھے دینا چاہتی ہے تو کیا میں بہن سے زکوٰۃ وصول کر سکتا ہوں یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے پاس بنیادی ضرورت و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد، نصاب کے بقدر (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو اور آپ سید بھی نہ ہوں تو پھر آپ کے لئے زکوٰۃ لینا جائز ہوگا۔البتہ اگر اتنا مال ہو کہ وہ نصاب کے بقدر ہو یا جمع شدہ ایک لاکھ کے ساتھ مل کر نصاب کے بقدر ہو تو پھر زکوٰہ لینا جائز نہیں ہوگا۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
'' لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي.''
(1/189، باب المصرف، کتاب الزکاة، ط: رشیدیه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144310101401
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن