کیا ہم اپنے داماد کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟ اور کیا طریقہ اختیار کر سکتے ہیں؟
بصورتِ مسئولہ آپ کا داماد واقعۃً مستحقِ زکاۃ ہو (یعنی اس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے بقدر رقم یا بنیادی ضرورت و استعمال سے زائد اتنی مالیت کا سامان موجود نہیں ہے اور وہ ہاشمی یعنی سید یا عباسی وغیرہ بھی نہ ہو) تو اسے زکاۃ دینے میں کوئی حرج نہیں، اور اس میں دوگنا اجر ہوگا، ایک فریضۂ زکاۃ کی ادائیگی کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔ تاہم زکوۃ کی ادائیگی کے لیے نیت اور (مستحقِ زکوۃ کو) مالک بنانا شرط ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ويشترط فيه النية".
(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، ج:2، ص:300، ط:سعيد)
وفیہ أیضاً:
"ويشترط أن يكون الصرف ( تمليكا ) لا إباحة".
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:344، ط:سعيد)
وفیہ أیضاً:
"ويجوز دفعها لزوجة أبيه وابنه وزوج ابنته تتارخانية".
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة، ج:2، ص؛346، ط:سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
و أما الذي يرجع إلى المؤدى فمنها أن يكون مالا متقوما على الإطلاق سواء كان منصوصا عليه أو لا من جنس المال الذي وجبت فيه الزكاة أو من غير جنسه."
(كتاب الزكوة ،فصل فيما يرجع الى المؤدى،ج:2، ص:41، ط:دار الكتب العلمية وغيرها)
مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح میں ہے:
"والأفضل صرفها للأقرب فالأقرب من كل ذي رحم محرم منه ثم لجيرانه، ثم لأهل محلته ثم لأهل حرفته ثم لأهل بلدته، و قال الشيخ أبو حفص الكبير رحمه الله: لاتقبل صدقة الرجل وقرابته محاويج حتى يبدأ بهم فيسد حاجتهم".
(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج:1، ص:272-273، ط:المكتبة العصرية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144509100418
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن