کیا اس بہن کو زکات دی جا سکتی ہے،جس کا اپنا گھر بھی نہ ہو ، اپنے بھائی کے گھر میں رہتی ہو ،اور اس کے شوہر کی تنخواہ بھی انتہائی کم ہو، اس کا بیٹا بھی معمولی تنخواہ پر ملازم ہو، اور وہ خود بھی کھانا بنا کر بیچتی ہو، لیکن وہ کوئی خاطر خواہ آمدنی نہیں ہو، گزر بسر انتہائی مشکل ہو، لیکن وہ خودداری کی وجہ سے مانگتی بھی نہ ہو؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی بہن صاحبِ نصاب نہیں ہےیعنی کہ اس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر نقد ی نہیں ہے اوربنیادی ضرورت سے زائداتنی مالیت کاسامان بھی نہیں ہے اور سید بھی نہیں ہے،تو اس صورت میں وہ مستحقِ زکاۃ ہے،زکاۃ سے اس کی مدد کرنا جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة.وفي الظهيرية: ويبدأ في الصدقات بالأقارب، ثم الموالي ثم الجيران."
(كتاب الزكاة، باب المصرف،٣٤٦/٢ ط: سعيد)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير."
(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف،١٨٧/١، ط : رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144509101101
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن