بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مستحق زکوٰۃ بیوہ کو زکوٰۃ دینا


سوال

 ایک بیوہ عورت  ہے،  جس کے بچے چھوٹے ہیں،  اس عورت کا اور اس کے بچوں کا نفقہ اس کے سسر اور دیور ادا کر رہے ہیں، مطلب سب ایک ہی گھر میں  ہیں،  الگ نہیں ہوئے  ہیں،  کیا اس بیوہ عورت کو زکوۃ دی جاسکتی ہے جب کہ وہ خود صاحبِ نصاب نہیں، اور باقی گھر والے یعنی اس کا سسر اور دیور صاحبِ نصاب  ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بیوہ خاتون  اگر واقعۃ ً زکوٰۃ کی مستحق ہے یعنی    اس کی    ملکیت میں   ضرورتِ  اصلیہ (مثلا رہنے سہنے، کھانے پینے، لباس پوشاک اور استعمال کی  سواری وغیرہ)  کے علاوہ     نصاب  (ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا   اس کے بقدر رقم یا  ان سب کو ملا کر مجموعی طور پر ساڑھے  باون تولہ چاندی )کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے) کے برابر بنتی ہے ،یا  اس کے پاس نصاب کے بقدر رقم یا ضرورت سے زائد سامان تو موجود ہو،  لیکن اس پر اتنا قرضہ ہو کہ قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد اس کے پاس نصاب کے  بقدر رقم نہ بچتی ہو    اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے تو  اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، اس سے زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

البتہ یہ ملحوظ رہے کہ   کسی شدید  ضرورت کے بغیر    زکوٰۃ کا  مطالبہ کرنادرست نہیں ،  لہذا اگر مذکورہ خاتون کے خرچ کا بندوبست ہورہا ہو اور اس کو کوئی شدید ضرورت نہ ہو تو وہ زکوٰۃ وصول نہ کرے۔

نوٹ: یہ مسئلے کا شرعی حکم ہے، کسی خاص مستحق کے حق میں سفارش یا تصدیق نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشروالكفارة فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم كذا في الكافي."

(کتاب الزکاة، باب المصرف، 1 /189، ط: رشیدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508101733

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں