بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مستحاضہ عورت کا تہجد کے وضو سے فجر پڑھنا/ فوت شدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو تو قضا کیسے کی جائے؟


سوال

1۔ اگر مستحاضہ عورت تہجد کی نماز کے لیے وضو بنائے اور اس کے بعد فجر کا وقت داخل ہو جائے تو کیا اسی وضو سے فجر کی نماز ادا کی جا سکتی ہے؟

2۔بلوغت کے بعد سے احتلام کی صحیح تعریف اور اس کی علامتیں پتہ نہیں تھیں تو اب کیسےان نمازوں کی قضا کی جائے ؟

جواب

1:مستحاضہ عورت تہجد والےوضوسے فجر کی نمازنہيں پڑھ سكتی عشاء کا وقت ختم ہونے سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا ،فجر کی نماز کے لیے دوباره وضو كرنا ضروری ہے۔

2:واضح رہے کہ لڑکا اور لڑکی کی بلوغت  کی علامات مختلف ہوتی  ہیں، لڑکےکی بلوغت یہ ہے کہ احتلام یا انزال ہوجائے، اور لڑکی کی بلوغت یہ ہے   اس کو حیض آجائے، یااحتلام ہو، نیز  بالغ ہونے کی ممکنہ عمر لڑکے کی کم سے کم  12 سال ،اور لڑکی کی 9 سال ہے، اس عمر کے بعد جب بھی مذکورہ  علامات میں سے کوئی  علامت ظاہر  ہو جائے تو  وہ بالغ شمار ہوگا/ہوگی،  اوراس پر نماز ، روزہ  اور دیگر عبادات  فر ض ہوجاتی ہیں،اور اگر علامات بلوغ ظاہر   نہ  ہوں  تو قمری سال کے اعتبار سے  جب پندرہ سال کو ہوجائے تو دونوں بالغ شمار ہوں گے اور نماز، روزہ  اور دیگر احکام کےمکلف ہوں گے ۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر سائلہ کو احتلام کاپتہ نہیں تو جب سے حیض آنا شروع ہواہے اس وقت  سے  بالغہ ہے اور اسی  وقت سے  اگر نمازوں کا اہتمام کیا ہےتو بہتر  ،بصورتِ دیگر  اس وقت سے جو نمازیں نہیں پڑھی ، روزے نہیں رکھے ان کی قضا لازمًا کرے۔

اور اگر سائلہ کو  قضا نمازوں کی تعداد  یقینی  طور پر معلوم  ہے   تو بہتر ،  بصور تِ دیگر اننمازوں کا احتیاط پر مبنی تخمینہ لگا کراس طرح  قضا کرے  اور یوں نیت کرے کہ مثلا فجر  کی جتنی نمازیں مجھ سے چھوٹ گئی ہیں ان میں  سے پہلی  نماز قضاکررہی  ہوں، اسی  طرح دیگر نمازوں  میں بھی نیت کرے  اور قضا بجا لانے  کی آسان صورت یہ   ہے  کہ ہر  وقتی  فرض نماز کے ساتھ  اس وقت کی قضا نماز پڑھ لی جائے  اور اس کے علاوہ ایک دن کی نمازیں یا کئی دن کی نمازیں ایک ہی وقت میں پڑھ لےیہ بھی ٹھیک ہے۔

فتاویعالمگيری ميں ہے:

 "(الفصل الثاني في معرفة حد البلوغ) بلوغ الغلام بالاحتلام أو ‌الإحبال أو الإنزال، و الجارية بالاحتلام أو الحيض أو الحبل، كذا في المختار. و السنّ الذي يحكم ببلوغ الغلام و الجارية إذا انتهيا إليه خمس عشرة سنةً عند أبي يوسف و محمد - رحمهما الله تعالى - و هو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - و عليه الفتوى ...و أدنى مدة البلوغ بالاحتلام و نحوه في حق الغلام اثنتا عشرة سنةً، و في الجارية تسع سنين."

[كتاب الحجر‌، الفصل الثاني في معرفة حد البلوغ،ج:3ص:61ط:دار الفکر بیروت]

و فيه أيضًا:

"المستحاضة و من به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لايرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة و يصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض و النوافل ...و يبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق، هكذا في الهداية. و هو الصحيح."

(كتاب الطهارة، الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة، ج:1، ص:41 ط: دار الفكر بيروت)

الدر مع الرد   میں  ہے:

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.

(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس و الجمعة و السبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلًا غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول أول فجر مثلًا، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولا أو يقول آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخرا."

(کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت ج:2، ص:76 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102097

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں