بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مستحب کی تعریف اور نمازِ جنازہ کو (باوجود دعا ہونے کے) نماز کہنے کی وجہ


سوال

(1)مستحب عمل کی تعریف کیا ہے؟

(2) نمازِ جنازہ خود دعا ہے تو پھر اسے نماز کیوں کہا جاتا ہے؟

جواب

(1)مستحب کا معنی ہے وہ عمل جو رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہو، لیکن اس پر رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پابندی نہ فرمائی ہو، کبھی وہ عمل کیا ہو اور کبھی چھوڑ دیا ہو، اسی طرح وہ عمل جس کو رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پسند فرمایا ہو، چاہے خود اس پر عمل کیا ہو یا نہیں، وہ بھی مستحب کہلاتا ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ومستحبه) ويسمى مندوبًا وأدبًا وفضيلة، وهو ما فعله النبي صلى الله عليه وسلم مرةً وتركه أخرى، وما أحبه السلف.

"(قوله: وهو إلخ) يرد عليه ما رغب فيه عليه الصلاة والسلام ولم يفعله؛ فالأولى ما في التحرير أن ما واظب عليه مع ترك ما بلا عذر سنة، وما لم يواظب عليه مندوب ومستحب وإن لم يفعله بعد ما رغب فيه اهـ بحر".

(كتاب الطهارة، سنن الوضوء، 1/ 123، ط: سعید)

(2)نمازِ جنازہ بھی ایک قسم کی نماز ہی ہے، اسی لیے جس طرح طہارت، ستر کا ڈھانپنا،استقبالِ قبلہ اور نیت وغیرہ عام نمازوں کے لیے شرط ہے اسی طرح یہ سب چیزیں نمازِ جنازہ کے لیے بھی شرط ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ نمازِ جنازہ عام نمازوں کی طرح رکوع، سجدہ اور قعدہ پر مشتمل نہیں ہے، البتہ چوں کہ نمازِ جنازہ سے مقصود میّت کے لیے دعا کرنا ہوتا ہے،نیز نمازِ جنازہ میں عام نمازوں کی طرح قرأت بھی نہیں کی جاتی ہے، بلکہ نمازِ جنازہ صرف ثناء، درود اور دعا پر مشتمل ہے، اس لیے نمازِ جنازہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نماز خود دعا ہے، کیوں کہ اس نماز کا اکثر حصہ دعا پر ہی مشتمل ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے نماز ہی نہ کہا جائے۔

الفتاوى الهندية  میں ہے:

"وكل ما يعتبر شرطا لصحة سائر الصلوات من الطهارة الحقيقية والحكمية واستقبال القبلة وستر العورة والنية يعتبر شرطا لصحة صلاة الجنازة، هكذا في البدائع".

(كتاب الصلاة،الباب الحادي والعشرون في الجنائز،الفصل الخامس في الصلاة على الميت،1/ 164،ط:رشیدیۃ)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"ولا يقوم الرجل بالدعاء بعد صلاة الجنازة؛ لأنه قد دعا مرة، لأن أكثر صلاة الجنازة الدعاء".

(كتاب الصلاة،الفصل الثاني والثلاثون في الجنائز،2/ 205،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100278

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں