بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مستامن پر حد سرقہ جاری نہیں ہوگی


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی غیرمسلم ویزا لے کر کسی ایسے اسلامی ملک میں آجائے جہاں پر حدود وقصاص کا شرعی نظام ہو اور باقاعدہ نفاذ بھی ہوتا ہو،وہاں آکرکوئی ایسا جرم کرے جو حدود یاقصاص کو واجب کرنے والا ہو تو اس پرحدود وقصاص جاری ہوگا یا نہیں؟خاص کر اگر چوری کرلے تو اس پرحدسرقۃ جاری ہو گا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جب کوئی غیر مسلم ویزالے کر اسلامی ملک  میں آجائے تو وہ مستامن  کہلاتا ہے اور مستامن پر سوائے قصاص اور حد قذف کے شرعاً اور کوئی حد جاری نہیں کی جاتی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی  غیرمسلم ویزا لے کر کسی ایسے اسلامی ملک میں آجائے جہاں پر حدود وقصاص کا شرعی نظام ہو اور باقاعدہ نفاذ بھی ہوتا ہو،اور وہاں وہ چوری کرلے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔البتہ چوری شدہ سامان اس سے واپس لے کر قاضی تعزیرا جو سزا مناسب سمجھے گا ،وہ سزا دے گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وإذا صار ذميا يجري القصاص إلخ) أما قبل صيرورته ذميا فلا قصاص بقتله عمدا بل الدية. قال في شرح السير: الأصل أنه يجب على الإمام نصرة المستأمنين ما داموا في دارنا، فكان حكمهم كأهل الذمة إلا أنه لا قصاص على مسلم أو ذمي بقتل مستأمن، ويقتص من المستأمن بقتل مثله، ويستوفيه وارثه إن كان معه وذكر أيضا أن المستأمن في دارنا إذا ارتكب ما يوجب عقوبة لا يقام عليه إلا ما فيه حق العبد من قصاص،أو حد قذف."

(کتاب الجہاد،باب المستامن،فصل فی استیمان الکافر169/4 ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"لا حد على المستأمن والمستأمنة عند أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - إلا حد القذف۔"

(کتاب الحدود ،الباب الرابع فی الوطء الذی یوجب الحد والذی لا یوجبہ،149/2 ط:دارالفکر)

مبسوط سرخسي ميں هے:

"(قال) وإذا زنى الحربي المستأمن بالمسلمة أو الذمية فعليها الحد ولا حد عليه في قول أبي حنيفة، وقال محمد رحمهما الله تعالى: ‌لا ‌حد ‌على واحد منهما، وهو قول أبي يوسف - رحمه الله - الأول ثم رجع وقال: يحدان جميعا، أما المستأمن فعند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله لا تقام عليه الحدود التي هي لله تعالى خالصا كحد الزنا والسرقة وقطع الطريق۔"

(كتاب الحدود،زنى الحربي المستأمن بالمسلمة أو الذمية55/9ط؛دارالمعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100110

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں