میں آن لائن ورکنگ کرتا ہوں، میرے کام کی نوعیت یہ ہے کہ مجھے میرے مختلف کلائنٹس سے ٹرانسلیشن( ایک زبان کا ترجمہ دوسری زبان میں کرنا ) اور ٹرانسکرپشن( آڈیو یا ویڈیوز کو سن کر لکھنا ) وغیرہ کا کام ملتا ہے، اور میں ٹیم لیڈر کی حیثیت سے یہ کام لوگوں سے کرواتا ہوں، کلائنٹ جب مجھے کام دیتا ہے تو اکثر اوقات انتہائی سختی سے یہ شرط لگاتا ہے کہ یہ کام اس لینگویج کے native (مقامی اہل زبان) لوگوں سے ہی کروانا ہے، مثلاً: کلائنٹ نے مجھے جرمن زبان کا ترجمہ انگلش زبان میں کرنے کا کام دیا ہے، یا اسی طرح جرمن زبان کی آڈیوز یا ویڈیوز کو سن کر لکھنے کا کام دیا ہے تو کلائنٹ کی شرط یہ ہے کہ کام اسی جرمن لینگویج کے لوگ کریں گے، اب ہمیں نیٹیو سے کام کروانے میں چند ایک مسائل ہیں:
1) کلائنٹ ہمارے اصرار کے باوجود نیٹیو والا ریٹ نہیں دیتا، جب کہ نیٹیو اتنے زیادہ ریٹ کا مطالبہ کرتے ہیں جو کلائنٹ کے ریٹ سے بھی اکثر اوقات زیادہ ہوتا ہے ۔
2) 80 فی صد بلکہ 90 فی صد نیٹیو لوگ کام میں بالکل بھی ماہر نہیں ہوتے؛ کیوں کہ کام خاص پلیٹ فارم پر کرنا ہوتا ہے، اور اکثر نیٹیو نہ اس کو سیکھتے ہیں، اور نہ ہی اس میں کچھ خاص دلچسپی لیتے ہیں۔
3) اگر کوئی نیٹیو ماہر بھی ہو تو کام بہت بہت آہستہ اور اپنی مرضی سے کرتا ہے، جبکہ کلائنٹ کی ریکوائرمنٹ زیادہ کام کی ہوتی ہے اس لیے کلائنٹ ڈانٹتا ہے، یا بسا اوقات کام واپس لےکر کسی اور کو دے دیتا ہے، اور پھر بھی کام اکثر اوقات پاکستانی کے پاس ہی لوٹتا ہے۔
4) نیٹیو کو پیمنٹ کرنے میں بھی کبھی کبھی مسئلہ در پیش ہوتا ہے کہ کبھی ہمارے پاس اس کے مطابق انٹرنیشنل اکاؤنٹ نہیں ہوتا، اور کبھی نیٹیو کے پاس ہمارے مطابق انٹرنیشنل اکاؤنٹ نہیں ہوتا۔
اب آپ سے سوال یہ ہے کہ درج بالا مسائل کی وجہ سے اگر ہم اکثر اوقات یہ کام ہائی لیول کے مختلف ٹرانسلیٹرز اور ٹرانسکرائیبرز سافٹ ویئرز یا دیگر ویب سائیٹس اور ایپلیکیشنز کے ذریعے پاکستانی لوگوں سے کروا لیتے ہیں، جو کلائنٹ کے دیے گئے پلیٹ فارم پر اچھی مہارت بھی رکھتے ہیں، اور کلائنٹ کو ان کا کام پسند بھی آ جاتا ہے، اور اس طرح کام جلدی بھی ہو جاتا ہے، اور ریٹ کا مسئلہ بھی نہیں بنتا۔
تو کیا اس طرح کام کرنے سے میری کمائی جائز ہو گی یا نہیں؟ کیوں کہ کلائنٹ نے مجھے بار بار بولا ہوتا ہے کہ نیٹیو لوگوں سے کام کروانا ہے، کسی سافٹ ویئر یا ایپلیکیشن کی مدد سے نہیں کروانا، اور میں جواب میں بول دیتا ہوں کہ نیٹیو ہی سے کام کرواؤں گا، اور کافی مرتبہ میں نے نیٹیو سے کام کروایا بھی ہے، لیکن کلائنٹ کو کام پسند نہیں آیا، اور اس نے پاکستانی کے اکثر کام کو اپروو (قبول) کیا ہے، اور نیٹیو کے اکثر کام کو ریجیکٹ کیا ہے، لیکن کبھی صورت حال یہ بھی ہوتی ہے کہ نیٹیو کا کام کلائنٹ کو پسند آتا ہے، اور نان نیٹیو کا کام ریجیکٹ ہو جاتا ہے، لیکن ایسا 100 میں سے 10 فی صد ہوتا ہے، ان درج بالا مسائل کی وجہ سے میں کام اکثر اوقات نیٹیو سے نہیں کروا پاتا۔
اور ایک اہم بات میں یہ بتا دوں کہ ہر لینگویج پر 90 فی صد کام اس فیلڈ میں پاکستانی ہی کر رہے ہیں، یعنی اگر میں اس وجہ سے کام نہیں کرواؤں گا کہ میرے پاس نیٹیو نہیں ہیں تو کلائنٹ جس دوسرے کو دے گا وہ بھی 80-90 فی صد پاکستانی سے ہی کروائے گا؛ کیونکہ کلائنٹ کے ریٹ کم ہوتے ہیں، اور پاکستانی کم ریٹ پر کام کر دیتے ہیں، اور نیٹیو کم ریٹ پر کم نہیں کرتے ہیں، تو کیا اس طرح کام کرنے سے میری کمائی جائز ہو گی یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ کلائنٹ کی طرف سے یہ بات طے کی جاتی ہے، بلکہ تاکید کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ Native (خاص اس زبان والے ٹرانسلیٹر یا ٹرانسکرپٹر) سے کام کروانا ہے تو ایسی صورت میں آپ پر لازم ہے کہ کلائنٹ کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کے مطابق نیٹیو ہی سے کام کروائیں، اگر کلائنٹ کے معاہدہ کے مطابق کام نہ کروایا تو شرعاً آپ کا اس عمل پر اجرت لینے کا حق نہیں ہوگا، اگرچہ دوسرے شخص نے نیٹیو سے اچھا کام کیا ہو، اور کلائنٹ کو اگر یہ معلوم نہ ہو، اور وہ یہ سمجھ کر اجرت ادا کرے کہ اس نے نیٹیو سے کام کروایا ہے (جب کہ آپ نے کام کسی اور سے کروایا ہو اگرچہ اس کو پسند بھی آجائے) تو یہ اجرت لینا جائز نہیں، بلکہ اس طرح جو اجرت لی ہو تو وہ اجرت اصل مالک کو واپس کرنا ضروری ہے، اور اگر وہ معلوم نہ ہو تو اس کی طرف سے بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنا لازم ہے، اور اگر کلائنٹ کی طرف سے ایسی کوئی شرط نہ لگائی جائے تو اس صورت میں جس سے بھی کام کروائیں جائز ہوگا، اس لیے اس طرح کی خاص شرط لگانے والے کلائنٹ کو یا تو اپنی مجبوری بتاکر اپنی وسعت کے مطابق عقد کریں، یا پھر معذرت کرلیں، اور صرف ان لوگوں سے عقد کریں جو یا تو شرط نہ لگائیں یا پھر مجبوری کو دیکھ کر شرط ختم کردیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وإذا شرط عمله بنفسه) بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك(لا يستعمل غيره إلا الظئر فلها استعمال غيرها) بشرط وغيره خلاصة (وإن أطلق كان له) أي للأجير أن يستأجر غيره، أفاد بالاستئجار أنه لو دفع لأجنبي ضمن الأول لا الثاني، وبه صرح في الخلاصة، وقيد بشرط العمل؛ لأنه لو شرطه اليوم أو غدا فلم يفعل وطالبه مرارا ففرط حتى سرق لا يضمن.وأجاب شمس الأئمة بالضمان، كذا في الخلاصة (وقوله على أن تعمل إطلاق) لا تقييد مستصفى، فله أن يستأجر غيره.قوله بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك) هذا ظاهر إطلاق المتون وعليه الشروح، فما في البحر والمنح عن الخلاصة من زيادة قوله ولا تعمل بيد غيرك فالظاهر أنه لزيادة التأكيد لا قيد احترازي ليكون بدونه من الإطلاق تأمل.(قوله لا يستعمل غيره) ولو غلامه أو أجيره قهستاني؛ لأن عليه العمل من محل معين فلا يقوم غيره مقامه كما إذا كان المعقود عليه المنفعة، بأن استأجر رجلا شهرا للخدمة لا يقوم غيره مقامه؛ لأنه استيفاء للمنفعة بلا عقد زيلعي.قال في العناية: وفيه تأمل،؛ لأنه إن خالفه إلى خير بأن استعمل من هو أصنع منه أو سلم دابة أقوى من ذلك ينبغي أن يجوز اهـ وأجاب السائحاني بأن ما يختلف بالمستعمل فإن التقييد فيه مفيد وما ذكر من هذا القبيل اهـ.وفي الخانية: لو دفع إلى غلامه أو تلميذه لا يجب الأجر اهـ.."
(كتاب الإجارة، 6/ 18، ط:سعيد)
وفيه أيضا:
"وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعدد مع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال.
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب في من ورث مالا حراما، 5/ 99، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603101658
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن