"مسند أبي يعلى الموصلي"کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
"مسند أبي يعلى الموصلي"،امام،حافظ،شیخ الاسلام، ابویعلي، احمد بن علي بن المثنی بن یحیی بن عیسی بن ہلال التمیمی الموصلی،محدِّثُ الموصل(متوفی:۳۰۷ھ) کی تالیف ہے ۔حافظ ابویعلي رحمہ اللہ اوران کی کتاب"مسند أبي يعلى الموصلي" کے بارے میں اہلِ علم سے بلند تعریفی کلمات منقول ہیں،جوذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں:
حافظ ابو یعلي الموصلی رحمہ اللہ اور ان کی کتاب"مسند أبي يعلى الموصلي" کے بارے اہلِ علم کے مدحیہ کلمات:
۱۔ابو عبد اللہ ابنِ مندہ ،حافظ ابویعلي رحمہ اللہ کی طرف عازمِ سفر ہوئےاوران کے پاس پہنچ کرفرمانے لگے:آپ کی ثقاہت اوراتقان پر اہلِ زمانہ متفق ہیں، اسی لیے میں آپ کی جانب عازم ِ سفر ہوا ہوں۔
۲۔ ابن المقرئ کہتے ہیں کہ حافظ عبد الغنی ازدی فرماتے ہیں:ابویعلی ثقاتِ اثبات (محدثین کے ہاں کسی کی تعدیل وتوثیق کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ میں سےہے) میں سے ہیں،وہ ابوحنیفہ کے مسلک پر تھے، میں نے کہا:جی ایسا ہی ہے، اس لیے کہ انہوں علمِ فقہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے تلامذہ سے حاصل کیاتھا۔
۳۔ابنِ عدی فرماتے ہیں:میں نےزمین پر "مسند أبي يعلى" کے سوائے کوئی مسند سنی نہیں ؛ اس لیے کہ وہ اللہ تعالی کے لیے حدیث بیان کرتے ہیں۔
۴۔ابن المقرئ فرماتے ہیں:میں نے ابواسحاق بن حمزہ کو"مسند أبي يعلى"کی تعریف کرتے سنا ہے، وہ فرماتے تھے:جس شخص نے یہ لکھی ہے اس سے کم ہی کوئی حدیث چھوٹی ہے۔
۵۔ابوحاتم البستی ، حافظ ابویعلی رحمہ اللہ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد فرمانے لگے:(روایت ِ حدیث میں) ان کے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف تین واسطے ہیں۔
۶۔ابوسعد السمعانی کہتے ہیں:میں نے اسما عیل بن محمد بن الفصل التمیمی الحافظ کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے مختلف ’’مسانید ‘‘پڑھی ہیں ،جیسے:"مسند العدني"، "مسند أحمد بن منيع"،وہ سب نہر کی طرح ہیں،جب کہ "مسند أبي يعلى" سمند ر کی مانند ہے جس میں سارے نہریں اکٹھی ہوجاتی ہیں۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس پرفرماتے ہیں:یہ بات سچ ہے، خاص طورپر ان کی وہ’’ مسند ‘‘جو ابن المقرئ کے طریق سےہے، کیوں کہ وہ بہت بڑی ہے،جب کہ وہ’’ مسند ‘‘جوابوعمر وبن حمدان کے طریق سے ہے، وہ اس کی نسبت مختصر ہے(اس کی تفصیل"مسند أبي يعلى"کی روایات کے ذیل میں مذکورہے)۔
(سير أعلام النبلاء، ج:14، ص:174و177-180، ترجمة: أبو يعلى أحمد بن على بن المثنى التميمي، ط: مؤسسة الرسالة)
"مسند أبي يعلى الموصلي" کی روایات:
"مسند أبي يعلى الموصلي" کی دوروایتیں ہیں:
۱۔ایک روایت ابوبکر ،محمد بن ابراہیم بن علی بن عاصم بن المقرئ (متوفی:۳۸۱ھ) کی ہے، یہ وہی روایت ہےجس پرحافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے "المطالب العالية بزوائد المسانية الثمانية" میں ، اور علامہ احمد بن ابوبکرالبوصیری رحمہ اللہ (متوفی:۸۴۰ھ) نے"إتحاف السادة المهرة بزوائد المسانيد العشرة"میں اعتماد کیاہے، اس روایت کو"المسند الكبير"کہتے ہیں۔
۲۔دوسری روایت ابو عمرو ، محمد بن احمد بن حمدان الحیر (متوفی:۳۷۶ھ)کی ہے ، یہ وہی روایت ہے جس پر حافظ نورالدین ہیثمی رحمہ اللہ نے"المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي"اور "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"میں اعتماد کیا ہے۔ہمارے ہاں دستیاب "مسند أبي يعلى الموصلي"اسی روایت سے ہے۔
"مسند أبي يعلى الموصلي" کی اہمیت اور اہلِ علم کا اس سے اعتناء:
اہل ِ علم نے مختلف پہلوؤں سے اس سے اعتناء کیا ہے، ذیل میں اس کی کچھ تفصیل ذکر کی جاتی ہے:
۱۔حافظ نورالدین ہیثمی رحمہ اللہ نےاولاًُ"مسند أبي يعلى الموصلي"کی زوائد کو "المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي" کے نام سے مستقل کتاب کی شکل میں جمع کیاهے ۔پھربعد میں اس کے ساتھ"مسند أحمد"،"مسند البزار"،"المعجم الكبير"،"المعجم الأوسط"، "المعجم الصغير"کو ملاکر "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"کے نام سے جمع کیا،مذکورہ تمام کتابوں کی سانید حذف کرکےانہیں ابواب ِ فقہیہ کی ترتیب پر مرتب کیا،ہرحدیث کے بعد اس کےاصل ماخذ کاذکر کرکے پھر اس کا حکم بیان کیا ہے۔
۲۔ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے دیگرسات ’’مسانید‘‘ سمیت اس کے زوائد کو "المطالب العالية بزوائد المسانية الثمانية"کی صورت میں جمع کیا ہے۔
۳۔ حافظ منذری رحمہ اللہ نے"الترغيب والترهيب"میں ۱۵۲(ایک سو باون) سے زائد مقامات پر، حافظ زیلعی رحمہ اللہ نے "نصب الراية لأحاديث الهداية"میں ۸۵ (پچاسی) سے زائد مقامات پر،حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے"فتح الباري شرح صحيح البخاري"میں ۲۲۶(دوسوچھبیس) سے زائد مقات پر ،اور علامہ مناوی رحمہ اللہ نے "فيض القدير شرح الجامع الصغير" میں ۱۰۹(ایک سونو) سے زائد مقات پر اس سے استفادہ کیا ہے۔ان کے علاوہ بھی بہت سی شخصیات ہیں جنہوں نے اس سے استفادہ کیا ہے۔
اسلوبِ تالیف:
حافظ ابویعلی رحمہ اللہ نے "مسند أبي يعلى الموصلي" کی تالیف میں درج ذیل ترتیب کو ملخوظ رکھا ہے:
۱۔ اولاً صحابہ کرام کی مرویات ذکر کی ہیں اور ہرصحابی کی مرویات کےلیے’’مسند‘‘ کا عنوان باندھا ہے۔
۲۔سب سے پہلے’’عشرہ مبشرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ‘‘ کی مرویات ذکر کیں ہیں ،پھر ان میں بھی خلفاءِ اربعہ کو مقدم کیا ہے، البتہ اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مرویات ذکر نہیں کیں۔
۳۔پھر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاذکر کیا ہے جن سے بہت کم روایات مروی ہیں۔
۴۔پھر ان صحابہ کرام کا ذکر کیا ہے جن سے بکثرت روایات مروی ہیں،ان کی روایات کو ان کے راویوں کی ترتیب پر مرتب کیا ہے۔
۵۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلٍِ قرابت واہلِ بیت کی مرویات ذکر کیں ہیں۔
۶۔پھر صحابیات رضی اللہ عنہن کی مرویات ذکر کیں ہیں۔
۸۔پھر’’مبہمین ‘ ‘ و’’مبہمات‘‘ کی مرویات ذکر کیں ہیں(یعنی ان صحابہ کرام وصحابیات رضی اللہ عنہم وعنہن کی مرویات ذکر کیں ہیں جن کے نام معلوم نہیں )۔
۹۔آخر میں دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات ذکر کیں ہیں۔
تعدادِ احادیث:
"مسند أبي يعلى الموصلي" میں احادیث کی تعداد ۷۵۵۵(سات ہزار پانچ سوپچپن) ہے۔"
(مسند أبي يعلى الموصلي، مقدمة التحقيق لأبي المظفر سعيد بن محمد السناري، ص: 11و15-19، ط:دار الحديث-القاهرة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144412101311
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن