بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

مسلمان کے لیے حرام اشیاء کی ڈلیوری کا حکم


سوال

 برطانیہ ویورپ میں ہمارے مسلمان فوڈ ڈلیوری یعنی KFC وغیرہ کے کھانے کے مراکز سے کھانے اٹھا کر لوگوں کے گھروں تک پہنچاتے ہیں اور اس کے عوض پیسے لیتے ہیں پوچھنے کی بات یہ ہے کہ آیا کھانا لے جانے والے مسلمان کے لئے خنزیر سے بنے ہوئے کھانے یا مردار جانوروں سے بنے ہوئے کھانوں کی ڈلیوری جائز ہے؟ اسی طرح انہی کھانوں کے ساتھ شراب لیکر جانا جائز ہے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ حرام کام میں تعاون بھی گناہ کا سبب ہوتا ہے یہاں تک کہ شراب پینے والے کے ساتھ احادیث مبارکہ میں پلانے والے، اسے بنانے والے اور اسے اٹھا کر پہچانے والے پر بھی اللہ کی لعنت کا ذکر ہے؛ لہذا حرام اشیاء کی ڈیلیوری کے بدلہ جو پیسے آپ کو ملتے ہیں، وہ ناجائز ہیں، اولاً متبال مکمل حلال روزگار کی کوشش کیجیے، یا جس ادارے سے آپ کا تعلق ہے اس کی انتظامیہ سے درخواست کریں کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے آپ کے لیے حرام اشیاء کی ڈیلیوری ممکن نہیں ہے، وہ ایسے آرڈر آپ کے حوالے نہ کریں، اور جب تک مذکورہ دونوں صورتیں ممکن نہ ہوں توبہ و استغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مانگتے رہیے اور حرام اشیاء کی ڈیلیوری پر حاصل ہونے والی رقم بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردیں۔ تاہم جو پیسے حلال اشیاء کی ڈیلوری کے عوض ملی ہوں، ان کا استعمال جائز ہے۔

حدیث شریف ميں هے:

"عن أبي علقمة، مولاهم وعبد الرحمن بن عبد الله الغافقي، أنهما سمعا ابن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لعن ‌الله ‌الخمر، وشاربها، وساقيها، وبائعها، ومبتاعها، وعاصرها، ومعتصرها، وحاملها، والمحمولة إليه۔"

(سنن ابي داؤد ، كتاب الاشربة، باب العنب يعصر للخمر، ج: ۳، صفحہ: ۳۲۶، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

البنایہ شرحِ ہدایہ ميں هے:

م: (وقال أبو يوسف ومحمد -رحمهما الله-: يكره له ذلك) ش: وبه قالت الثلاثة - رَحِمَهُمُ اللَّهُ - لا يجوز العقد عندهم أصلا۔"

(كتاب الكراهيه، فصل في البيع، جلد:۱۲، صفحہ: ۲۲۲، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

فتاویٰ شامی ميں ہے:

"(قوله وحمل خمر ذمي)قال الزيلعي: وهذا عنده وقالا هو مكروه " لأنه - عليه الصلاة والسلام - «لعن في الخمر عشرة وعد منها حاملها» وله أن الإجارة على الحمل وهو ليس بمعصية، ولا سبب لها وإنما تحصل المعصية بفعل فاعل مختار، وليس الشرب من ضرورات الحمل، لأن حملها قد يكون للإراقة أو للتخليل، فصار كما إذا استأجره لعصر العنب أو قطعه والحديث محمول على الحمل المقرون بقصد المعصية اهـ زاد في النهاية وهذا قياس وقولهما استحسان، ثم قال الزيلعي: وعلى هذا الخلاف لو آجره دابة لينقل عليها الخمر أو آجره نفسه ليرعى له الخنازير يطيب له الأجر عنده وعندهما يكره۔"

(كتاب الحظر والاباحة، فصل في البيع، ج: ۶، صفحہ: ۳۹۲، ط: ایچ، ایم، سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(و لايجوز بيعها) لحديث مسلم: «إن الذي حرم شربها حرم بيعها».(قوله: في حق المسلم) أما الذمي فهي متقومة في حقه كالخنزير حتى صح بيعه لهما، ولو أتلفهما له غير الإمام أو مأموره ضمن قيمتها له كما مر في آخر الغصب.

(قوله: لا ماليتها في الأصح) لأن المال ما يميل إليه الطبع ويجري فيه البذل والمنع، فتكون مالًا لكنها غير متقومة لما قلنا أتقاني."

(کتاب الأشربة، ج: ۶، صفحہ: ۴۴۹، ط: ایج ایم سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508101042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں