بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 محرم 1447ھ 07 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

مسلمان مرد کا اہلِ کتاب عورت سے نکاح، اسلام قبول کرنے پر اثرات، اور خاندانی دباؤ میں نکاح کی شرعی حیثیت


سوال

میں خود ایک مسلمان مرد ہوں ،میرا نکاح ایک (اہل کتاب)عیسائی عورت سے اسلامی طریقے پر، گواہوں، حقِ مہر اور تمام شرعی شرائط کے ساتھ انجام پایا۔ نکاح کے وقت وہ عورت اہلِ کتاب میں سے تھی، اور اب وہ دلی طور پر اسلام قبول کرنا چاہتی ہے اور باقاعدہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونا چاہتی ہے۔

میں  اس نکاح کو  دلی طور پر تسلیم کرتا ہوں  اور اپنی دوسری بیوی (نو مسلمہ) کے ساتھ ازدواجی زندگی قائم رکھنا چاہتا ہوں ، مگر مجھے  اپنی پہلی بیوی اور بعض اہلِ خانہ کی جانب سے اس نکاح کو ختم کرنے کا سخت دباؤ ہے۔ اس صورتحال میں درج ذیل امور کی شرعی وضاحت درکار ہے:

1. کیا مسلمان مرد کا نکاح اہلِ کتاب (عیسائی) عورت سے شرعاً جائز ہے اگر تمام شرائطِ نکاح پوری کی گئی ہوں؟

2. اب جب کہ عورت اسلام قبول کرنا چاہتی ہے، کیا پہلا نکاح برقرار رہے گا یا دوبارہ نکاح درکار ہوگا؟

3. اگر شوہر، خاندان کے دباؤ کے باوجود یہ نکاح قائم رکھنا چاہے، تو دینِ اسلام میں اس صورتحال کا کیا حل ہے؟

4. اگر شوہر صرف  بیوی یا خاندانی دباؤ کی وجہ سے یہ نکاح ختم کرے، تو شرعاً اس فعل کا گناہ یا وبال کس پر ہوگا؟ شوہر پر، اہلِ خانہ پر، یا دیگر متعلقہ افراد پر؟

5. کیا یہ  نکاح  شرعی طور پر تسلیم شدہ ہوسکتا ہے  تاکہ ہم  عدالت میں اس کو ثابت شدہ پیش کیا جا ئے؟۔۔۔

جواب

1-2 صورتِ مسئولہ میں سائل نے جس عورت سے نکاح کیا ہے، اگر وہ واقعۃً آسمانی دین (نصرانیت) کی پیروکار ہو، اور وہ اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی نہ بنی ہو، تو ایسی کتابیہ عورت سے نکاح شرعاً منعقد ہوچکا ہے۔

اب اگر وہ عورت خلوصِ دل سے اسلام قبول کر لے گی، تو  سابقہ نکاح باقی رہے گا اور نکاح کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔

3-4واضح رہے کہ مرد کو ایک سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت  ہے مگر بیویوں میں عدل قائم رکھنا ضروری ہے۔اگر کسی شخص کویہ غالب  اندیشہ ہو کہ وہ دوسری شادی کے بعد عدل برقرار نہیں رکھ سکے گا، تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں ہے۔

لہٰذا اگر سائل دونوں میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کر سکتا ہے، تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز ہے۔ اب اگر شادی کے بعد وہ ان تمام شرائط کی پاسداری کر رہا ہے، تو محض دوسروں کے اصرار یا ناپسندیدگی کی وجہ سے دوسری بیوی کو طلاق دینا ضروری نہیں ہے، اور نہ ہی بلا وجہ طلاق دینا کوئی مناسب عمل ہے۔ اسی طرح پہلی بیوی کو بھی بلا وجہ طلاق کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔

تاہم اگر سائل ان تمام شرائط کو پورا نہیں کرتا، یا دونوں میں برابری نہیں کرتا اور ان حقوق میں کسی ایک بیوی کی طرف جھکاؤ رکھے گا، تو ایسا شوہر ظالم شمار ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس پر مؤاخذہ ہو گا۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط ہو گا۔

5-مذکورہ نکاح اسلامی اصولوں کے مطابق کراہتِ تنزیہی کے ساتھ جائز اور معتبر تھا۔ اب جب وہ عورت خلوصِ دل سے اسلام قبول کر لے گی، تو وہ کراہت خودبخود ختم ہو جائے گی اور نکاح شرعی اعتبار سے کامل اور بلا شبہ درست شمار ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح نكاح كتابية)، وإن كره تنزيهاً (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلهاً." 

(كتاب النكاح، ج:3، ص:45، ط:سعيد)

قرآن کریم میں ہے :

 وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا ﴾ (النساء:3)

"ترجمہ:اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے."( بیان القرآن )

سنن أبي داؤد میں ہے۔

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل." 

(باب في القسم بين النساء،ج: 3 ،ص: 469، ط:دار الرسالة العالمیة)

"ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:  جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں  اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔"

فتاوی شامی میں ہے :

"  وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح"

(کتاب الطلاق، ج:3، ص:228، ط: سعید)

بہشتی زیور میں ہے:

"في "المشكوة" عن ابن عمر قال: كانت تحتي امرأة أحبها، وكان عمر يكرهها، فقال لي: طلقها، فأبيت، فأتى عمر رسول الله ﷺ، فذكر ذلك له، فقال لي رسول الله ﷺ: طلقها. رواه الترمذي. في "المرقاة": طلقها أمر ندب أو وجوب إن كان هناك باعث آخر.

وقال إمام الغزالي في "الإحياء" جلد ۲، صفحة ۲۶ كشفي: في هذا الحديث، فهذا يدل على أن حق الوالد مقدم، ولكن والده يكرهها لا لغرض فاسد، مثل عمر.

في "المشكوة" عن معاذ قال: أوصاني رسول الله ﷺ، وساق الحديث، وفيه: لا تعصین والديك، وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك. الحديث في "المرقاة".

شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا، أما باعتبار أصل الجواز فلا يلزمه طلاق زوجۃ امرأة بفراقها، وإن تاذيا ببقائها إيذاءً شديدًا، لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلا يكلفه لأجلهما، إذ من شأن شفقتهما أنها لو تحققا ذلك لم يأمرا به، فالزَامهُما له مع ذلك حمقٌ منهما، ولا يُلتفت إليه."

اس عبارت کے بعد ارشاد فرمایا:

"اور اسی کلیہ سے ان کو فروع کا بھی حکم معلوم ہو گیا کہ مثلا:وہ کہے کہ اپنی بی بی کو بلا وجه معتد بہ طلاق دیدے تو اطاعت واجب نہیں۔ (و حدیث ابن عمر يحمل على الاستحباب او على ان امر عمر كان عن سبب صحیح )"

(گیارہواں حصہ، ص:637،ط:توصیف پبلی کیشنز)

إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري(شرح القسطلانی) میں ہے:

"(عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-) أنه (قال): (لا يحل لامرأة تسأل طلاق أختها) في النسب أو في الرضاع أو في الدين أو في البشرية لتدخل الكافرة أو المراد الضرة ولفظ لا يحل ظاهر في التحريم لكن حمل على ما إذا لم يكن هناك سبب مجوّز كريبة في المرأة لا يسوغ معها الاستمرار في العصمة وقصدت النصيحة المحضة  إلى غير ذلك من المقاصد الصحيحة وحمله على الندب مع التصريح بالتحريم بعيد، وفي مستخرج أبي نعيم لا يصلح لامرأة أن تشترط طلاق أختها وبلفظ الأشراط تحصل المطابقة بين الحديث والترجمة وظاهر هذه الرواية التي فيها لفظ الشرط أن المراد الأجنبية فتكون الأخوة في الدين ويؤيده ما في حديث أبي هريرة عند ابن حبان: لا تسأل المرأة طلاق أختها فإن المسلمة أخت المسلمة (لتستفرغ صحفتها) أي تجعلها فارغة لتفوز بحظها من النفقة والمعروف والمعاشرة"

(کتاب النکاح، باب الشروط التي لا تحل في النكاح، ج:8، ص:63/ 64، ط:المطبعۃ الکبریٰ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144612100592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں