بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان کو کافر کہنا


سوال

اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو کافر کہے اور مخاطب شخص کافر نہ ہو تو اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب

 کسی بھی مسلمان پربغیرکسی شرعی دلیل کے کافرہونے کاحکم لگانا،اس کوکھیل بنالیناسخت گناہ اورحرام ہے، اور ایسے شخص کے ایمان کے لیے بھی خطرناک ہے،اس سے آدمی کااپنادین وایمان سلامت نہیں رہتا،لہذا دوسرے مسلمانوں پرکفرکاحکم لگانے والے شخص کواپنے دین وایمان کی فکرکرنی چاہیے،اپنی حرکات سے بازآکرتوبہ تائب ہوناچاہیے۔

بہر حال اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو گالی کے طور پر کافر کہے تو اس سے کہنا والا کافر تو نہیں ہوگا، البتہ یہ کبیرہ گناہ اور حرام ہوگا۔ اور اگر ایسے مسلمان  کو کافر سمجھ  کر کافر کہا جس میں کفر کی کوئی بات نہ پائی جاتی ہو تو کہنے والا خود ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

مشکوۃ شریف میں ہے:

" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری ومسلم)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 69):

"(وعزر) الشاتم (بيا كافر) وهل يكفر إن اعتقد المسلم كافراً؟ نعم، وإلا لا، به يفتى، شرح وهبانية، ولو أجابه: لبيك، كفر، خلاصة. وفي التتارخانية: قيل: لايعزر ما لم يقل: يا كافر بالله؛ لأنه كافر بالطاغوت، فيكون محتملاً.

(قوله: بيا كافر) لم يقيد بكون المشتوم بذلك مسلماً لما يذكره بعد (قوله: إن اعتقد المسلم كافراً نعم) أي يكفر إن اعتقده كافراً لا بسبب مكفر. قال في النهر: وفي الذخيرة: المختار للفتوى أنه إن أراد الشتم ولايعتقده كفراً لايكفر، وإن اعتقده كفراً فخاطبه بهذا بناءً على اعتقاده أنه كافر يكفر؛ لأنه لما اعتقد المسلم كافراً فقد اعتقد دين الإسلام كفراً. اهـ". 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201200336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں