بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 ربیع الاول 1446ھ 04 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلم اور غیر مسلم کے مخلوط مجمع میں سلام کی جگہ دوسرے الفاظ استعمال کرنے کا حکم


سوال

 ڈرائیور لوگوں کی ایک بڑی یونین ہے،  اور اس یونین کے اندر تمام مذاہب (ہندو،  مسلم،  سیکھ،  عیسائی) کے لوگ شامل ہیں، اور  ایسی جگہ پر سلام کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک کے لیے الگ الفاظ استعمال کرنا بہت مشکل ہے ، تو ایسی صورت میں یونین والوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ الفاظ استعمال کیے جائیں جس میں کسی مذہب کی شناخت نہ ہو مثلا جے ہند یا جے بھارت وغیرہ کے الفاظ استعمال کرنا ، پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مسلمان کا اسلامی شعار السلام علیکم ہے،سلام کے لیےغیر اسلامی شعار کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے،اگر مخلوط (مسلم اور غیر مسلم) کا مجمع ہو تو "السلام علیکم "  کہنا چاہیے اور نیت ان کی ہو جو اس کا اہل ہے، اور اگر خالص غیر مسلم ہو تو ان کو  "السلام علی من اتبع الھدی"کے الفاظ سے مخاطب کرنا چاہیے،اور اگر وہ السلام علیکم کہیں تو جواب میں "وعلیکم" کہہ دیا جائے،اگر وہ اپنے الفاظ میں  سلام کرے،تو جواب میں "ھَدَاکَ اللہ"یا صرف لفظِ "سلام"کہہ دیا جائے۔

لہذا صورتِ مسئولہ سلام کی جگہ پر سلام کے بجائے دیگر الفاظ استعمال کرنا درست نہیں ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تشبه بقوم فهو منهم» " رواه أحمد، وأبو داود.

(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب.

 (كتاب اللباس، الفصل الثاني، ج:8، ص:222، ط:مکتبہ حنیفیہ)

وفيه أيضاً:

"قال النووي: لو مر على جماعة فيهم مسلمون أو مسلم وكافر، فالسنة أن يسلم عليهم بقصد المسلمين أو المسلم، ولو كتب كتابا إلى مشرك، فالسنة أن يكتب كما «كتب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى هرقل: سلام على من اتبع الهدى»."

(كتاب الآداب، باب السلام، ج:8، ص: 464، ط:دار الکتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولفظ السلام في المواضع كلها: السلام عليكم أو سلام عليكم بالتنوين، وبدون هذين كما يقول الجهال، لا يكون سلاما."

(كتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج:6، ص:416، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"إذا سلم على أهل الذمة فليقل: السلام على من اتبع الهدى وكذلك يكتب في الكتاب إليهم اهـ. وفي التتارخانية قال محمد: إذا كتبت إلى يهودي أو نصراني في حاجة فاكتب السلام على من اتبع الهدى."

(كتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع، ج:6، ص:412، ط:سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"عنوان:غیر مسلم اور فاسق کو سلام،آداب ،عرض،نمستے،کا جواب کس طرح دیا جائے؟

سوال(1)غیر مسلم کو سلام کرنے کا کیا حکم ہے؟اگر ان کے مجمع سے گزر ہو تو ان کو سلام کیا جائے یا نہیں؟

سوال(2) آداب،عرض،نمستے وغیرہ جو کلمات ان کی طرف سے بطور سلام استعمال ہو ان کا جواب کیسے دیا جائے؟

جواب(1) جو کلمات ان کے یہاں بطورِ سلام مستعمل ہوتے ہیں ان کو نہ ابتداءًکہے نہ جواباً،وقتِ ضرورت ان کو ؛السلام علی من اتبع الھدی؛ سے خطاب کرنا درست اور ثابت ہے،اگر وہ ؛السلام علیکم؛کہیں تو جواب میں ؛وعلیکم؛کہہ دیا جاوے۔

جواب(2) اگر وہ اپنے کلمات ؛نمستے ؛وغیرہ کہیں تو جواب میں ؛ھداک اللہ ؛اور ؛سلام؛کہہ دیا جاوے،فقط سلام کہہ دینا بھی درست ہے۔

جب  مجمع مخلوط ہو تو "السلام علیکم" کہنا چاہیے اور نیت ان کی ہو جو اس کے اہل ہیں ، اگر خالص ان کا ہو تو "السلام علی من اتبع الھدیٰ " کہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، باب السلام الخ، ج:19، ص:92۔93، ط:جامعہ فاروقیہ )

وفيه أيضاً:

"سوال:کسی ہندوکو"رام رام"کرنےیا لینے سے کفر عائد ہوجاتا ہے؟یا"جے رام"کرنے سے؟

"جواب:اسلامی شعائر"السلام علیکم "ہے،غیر اسلامی شعائر کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے،پھر اگر وہ غیر کا شعار ہوتو اس کو اختیار کرنا معصیت ہے،اگر مذہبی شعار ہو تو کفر تک پہنچ جانے کا خطرہ ہے۔"

( کتاب الحظر والاِباحت، کافر اور فاسق کے سلام اور اس کے جواب کا بیان، ج:19،ص:96،ط:زیر نگرانی دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144504102143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں