بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان قیدی کو اگر کفار اپنے سامنے سجدہ کرنے پر مجبور کر دیں یا ان کے سربراہ کے ماتھا چومنے پر مجبور کریں تو شرعا کیا حکم ہے؟


سوال

مسلمان قیدی کو اگر کفار اپنے سامنے سجدہ کرنے پر مجبور کر دیں یا ان کے سربراہ  کا ماتھا چومنے پر مجبور کریں تو اس صورت میں شرعًا کیا حکم ہے؟

جواب

۱:        اگر کسی مسلمان قیدی  کو   کافر بادشاہ  یا ایسا  شخص (جو اپنی دھمکی نافذ کرنے پر قادر ہو) دھمکی دے کہ اگر مجھے   یا فلاں  شخص کو سجدہ نہیں کیا تو   جان سے  ماردوں گا  یا جسم  کے کسی عضو کو  کاٹنے  کی    دھمکی دے تو ایسی صورت میں اگر وہ مسلمان قیدی  اس کے سامنے سجدہ کرتا ہے  لیکن اس کا دل ایمان پر مطمئن ہے تو ایسا مجبور مسلمان  اس کفریہ کام کی وجہ سے دائرۂ  اسلام سے خارج نہیں ہوگا، البتہ اگر وہ انکار کرے اور اس کے نتیجے میں وہ شہید کردیا جائے یا کسی عضو سے محروم کیا جائے تو  عنداللہ وہ  ماجور  (اجر و ثواب کا مستحق) ہوگا۔  اور  اگرسجدہ  نہ کرنے پر  قتل یا عضو کاٹنے کے بجائے قید کرنے  یا مار پٹائی  کی دھمکی دے تو ایسی صورت مسلمان کے  لیے اس کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت نہیں ۔

 

۲:       کفار  کے مجبور کرنے کی وجہ سے اگر کوئی مسلمان  کافر   سربراہ  کی پیشانی کو بوسہ دے تو  شرعًا  وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔  حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے  کہ آپ رضی اللہ عنہ کو  رومی بادشاہ نے اس شرط کے ساتھ     اسی  (80) ساتھیوں سمیت رہا کرنے کی پیشکش کی کہ آپ میرے سر کو بوسہ  دیں، آپ رضی اللہ عنہ نے ساتھیوں  کی رہائی کے خاطر یہ پیشکش منظور  کی، اور  رومی  بادشاہ کے سر کو بوسہ دیا، جب   عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ   کی خدمت میں پہنچے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے  آپ کے سر کو بوسہ دیا۔

"و إن أكره على الكفر بالله تعالى أو سب النبي صلى الله عليه وسلم بقتل أو قطع رخص له إظهار كلمة الكفر والسب، فإن أظهر ذلك وقلبه مطمئن بالإيمان فلا يأثم، وإن صبر حتى قتل كان مثابًا، وإن أكره على الكفر والسب بقيد أو حبس أو ضرب لم يكن ذلك إكراهًا."

(الفتاوى الهندية: كتاب الإكراه، الباب الثاني فيما يحل للمكره أن يفعل وما لا يحل (5/ 38)،ط. رشيديه)

"عن عكرمة، عن ابن عباس قال: أسرت الروم عبد الله بن حذافة السهمي صاحب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، فقال له الطاغية: تنصّر، وإلا قتلتك أو ألقيتك في النقرة النحاس، قال: ما أفعل، فدعى بنقرة نحاس فملئت زيتًا وأغليت، ودعى رجلًا من المسلمين، فعرض عليه النصرانية فأبى، فألقاه في النقرة، فإذا بعظامه تلوح.فقال لعبد الله بن حذافة: تنصّر وإلا ألقيتك. قال: ما أفعل. فأمر به أن يلقى في النقرة، فكتفوه فبكى، فقالوا: قد جزع وبكى. قال: ردّوه. قال: فقال: لا تظن أني بكيت جزعًا، ولكن بكيت إذ ليس بي إلا نفس واحدة يفعل بها هذا في [سبيل] الله عز وجل، كنت أحب أن يكون لي من الأنفس عدد كل شعرة في، ثم تسلط علي فتفعل بي هذا، قال: فأعجب به، وأحب أن يطلقه، فقال: قبِّل رأسي وأطلقك. قال: ما أفعل.قال: تنصّر وأزوّجك ابنتي وأقاسمك ملكي، قال: ما أفعل، قال: قبِّل رأسي وأطلق معك ثمانين من المسلمين، فقال: أما هذا فنعم، فقبل رأسه فأطلقه وثمانين معه. فلما قدموا على عمر قام إليه عمر فقبّل رأسه، فكان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يمازحون عبد الله فيقولون: قبّل رأس العلج."

(المنتظم في تاريخ الأمم والملوك: حوادث سنة اثنتين وعشرين (4/ 320، 321)،ط. دار الكتب العلمية، بيروت الطبعة: الأولى: 1412 هـ = 1992 م)

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200097

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں