بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں اسکول کھولنے کاحکم


سوال

 سوات میں واقع دارالافتاء والتحقیق نشاط چوک مینگورہ سوات  میں ایک  مدرسہ  کے مہتمم صاحب  تشریف لائے اور استفتاء دریافت کیا   کہ مسجد میں مستقل اسکول چلانا جائز ہے یا نہیں ؟ دارالافتاء کے طرف سے جواب ملا کہ جائز نہیں ہے۔ مہتمم  صاحب  نے پھر سوال کیا  کہ میں نے جب مسجد کو  وقف کرنا چاہا تھا تو  میری نیت میں یہ بات تھی کہ اس میں مستقل  اسکول  ہوگا۔ اور دارالعلوم کراچی کے ایک جواب سے جواز معلوم ہوتا ہے ۔ جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مسجد میں ابتدائی طور  پر مسجد کے حدود میں ہسپتال، لائبریری بنانا جائز ہے۔ دارالافتاء کے طرف سے دوبارہ جواب ملا کہ اسکول کے نیت آپ کے مسجد کے تعمیر کے وقت درست نہیں،  لیکن وہ مطمئن نہیں ہوئے۔ اور مطالبہ کیا کہ بڑے اداروں کے دارالافتاء سے مجھے جواب چاہیے ؛  لہٰذا آپ حضرات مہربانی فرماکر جواب ارسال فرمائیں!

جواب

واضح  رہے کہ جس زمین  پر ایک مرتبہ شرعی مسجد بن جائے تو وہ تحت الثری (زمین کی تہہ) سے اوپر آسمان تک  قیامت تک کے لیے مسجد رہتی ہے، اس میں اسکول بنانا یا  مستقل مدرسہ بنانا  جائز نہیں  ہوتا۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  مسجد کے اندر عصری تعلیم گاہ  کھولنا  جائز نہیں ہے، چاہے وقف کرتے وقت یہ نیت کی ہو کہ  ميں مسجد ميں اسكول كھولوں گا تب بھی جائز نہیں ہے ،اسی طرح مسجد کے اندر   شدید ضرورت کے بغیر  فیس لے کر قرآن اور دین کی تعلیم دینا بھی مکروہ ہے، چہ جائے کہ مسجد میں  عصری تعلیم گاہ ہو، یہ  مسجد کے تقدس کے منافی  ہے۔

البتہ  ضرورت اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے  قرآن اور دین کی ضروریات کی تعلیم مسجد کے آداب  اور احترام کی رعایت کرتے ہوئے اور صفائی کا خیال رکھتے ہوئے  مسجد کے اندر دینا جائز ہے،اس لیے  قرآن اور دینی ضروریات کے لیے  عارضی  طور پر تعلیم گاہ بنانے کی اجازت ہے، لیکن مسجد میں اسکول کھولنے کی اجازت نہیں  ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية".

 (الباب الثانی فیما یجوز وقفہ،2 / 362، ط: رشیدیہ)

البحر الرائق  میں ہے:

"فقد قال الله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] وما تلوناه من الآية السابقة فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأنّ المسجد ما بني إلا لها من صلاة واعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن، ولايتعين مكان مخصوص لأحد".

 ( کتاب الصلاۃ،2 / 36 ،  ط: دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101791

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں