جس وقت ہمارے گاؤں میں ایک بڑی جامع مسجد کی ضرورت پیش آئی تو لوگوں نے مختلف مقامات پر اپنی زمینیں مسجد کے لیے وقف کیں، ظاہر سی بات ہے مسجد کو آبادی کے اندر یا اس سے بہت قریب کسی جگہ پر بنانا تھا، مگر جو زمینیں وقف کی گئی تھیں ان میں سے بیشتر آبادی سے بہت دور متفرق جگہوں پر تھیں، اس کا واضح سا مطلب تھا کہ مسجد کے لیے وقف کردہ زمینوں کو فروخت کرنا یا متبادل زمین لینے کی بزبانِ حال مسجد انتظامیہ کو اجازت دی گئی تھی، مسجد انتظامیہ نے متفرق جگہوں پر موجود بہت سی موقوفہ زمینوں کا تبادلہ کرکے یا بیچ کر آبادی کے قریب عام شاہراہ سے متصل ایک بڑی جامع مسجد کی تعمیر عمل میں لائی، مگر مسجد کے لیے وقف کردہ زمینوں میں سے جو اب مسجد کی تعمیر کے بعد خالی پڑی ہیں اور کچھ تو آبادی سے بھی بہت دور ہیں، وہاں دوکانیں وغیرہ بنواکر مسجد کے مصالح کے لیے بھی استعمال ممکن نہیں تو کیا ایسی صورت میں مسجد انتظامیہ ان موقوفہ زمینوں کو فروخت کرسکتی ہے یا نہیں؟
وضاحت: ہمارے ہاں اگر کوئی شخص مسجد یا مدرسہ کے لیے کچھ بھی وقف کردیں تو عرف میں مسجد اور مدرسہ کے منتظمین کو اسے بیچنے یا متبادل چیز لینے کا حق حاصل ہونا سمجھا جاتا ہے، اسی لیے اگر موقوفہ زمین کسی کو بھی فروخت کردے تو واقف کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
صورتِ مسئولہ میں واقفین نےز مینیں وقف کرتے ہوئے بیچنے کی صراحۃ ً اجازت دی تھی تو اس صورت میں مذکورہ موقوفہ زمینیں بیچ کر اس کی رقم مسجد کے مصارف میں استعمال کر سکتے ہیں ،لیکن اگر واقفین نے بیچنے کی صرحۃ اجازت نہیں دی تھی تو اس صورت میں بیچنا جائز نہیں ہے ،بلکہ جس کام کے لیے دی اسی کام میں استعمال کرنا ضروری ہے ، اور اگر ایساکرنا ممکن نہیں تو اس کو کرایہ پر دیکر جو بھی اس کی آمدنی حاصل ہو وہ کسی مسجد کے لینے فروخت کرنے کی صورت میں کسی مسجد میں اور مدرسہ کے وقف کرنے کی صورت کسی مدرسہ میں استعمال کیا جائے ۔
فتح القدير میں ہے:
"(قوله: وإذا صح الوقف) أي لزم، وهذا يؤيد ما قدمناه في قول القدوري وإذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف. ثم قوله (لم يجز بيعه ولا تمليكه) هو بإجماع الفقهاء."
(کتاب الوقف،220/6، دار الفکر)
رد المحتار میں ہے:
"إن شرائط الواقف معتبرةٌ إذا لم تخالف الشرع وهو مالكٌ، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخصّ صنفاً من الفقراء، وكذا سيأتي في فروع الفصل الأول أنّ قولهم: شرط الواقف كنصّ الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به. قلت: لكن لا يخفى أن هذا إذا علم أنّ الواقف نفسه شرط ذلك حقيقةّ، أما مجرد كتابة ذلك على ظهر الكتب كما هو العادة فلا يثبت به الشرط، وقد أخبرني بعض قوّام مدرسة إنّ واقفها كتب ذلك ليجعل حيلةً لمنع إعارة من يخشى منه الضياع والله سبحانه أعلم ."
( کتاب الوقف، مطلب متی ذکر للوقف مصرفاً،366/4،سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"في فتاوى النسفي: سُئل شيخ الإسلام عن أهل قرية افترقوا وتداعى مسجد القرية إلى الخراب وبعض المتغلبة يستولون على خشب المسجد وينقلونه إلى ديارهم هل لواحد من أهل القرية أن يبيع الخشب بأمر القاضي ويمسك الثمن ليصرفه إلى بعض المساجد أو إلى هذا المسجد، قال: نعم، كذا في المحيط."
(کتاب الوقف،الباب الثالث عشر فی الاوقاف التی یستغنی عنہا، 478/2،رشیدیہ)
"مطلب في استبدال الوقف وشروطه (قوله: وجاز شرط الاستبدال به إلخ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح."
(رد المحتار ، كتاب الوقف 4/ 384 ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401100758
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن