بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے وقف شدہ زمین کا حکم


سوال

 زید اپنی ذاتی زمین میں مسجد بنانا چاہتا تھا اور مسجد کا کام بھی شروع کردیا مسجد پائے تکمیل کے قریب تھی کہ چند دشمن اور محلے والوں نے وہاں پر مسجد بنانے سے منع کر دیا ،اب حالت یہ ہے کہ وہاں پر کبھی بھی مسجد کے لیے لوگ راضی نہیں ہوں گے، زید کا سوال یہ ہے کہ جتنا خرچہ اس مسجد کو بنانے کے لیےآرہا  ہے  کسی اور مسجد میں لگا دوں  اور اس جگہ کو اپنے ذاتی استعمال کر لوں  تو کیا زید ہے کا ایسا کرنا صحیح ہے ؟اگر صحیح نہیں ہے تو اس جگہ کا معاملہ کیا کریں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ زمین مسجد کے لیے وقف ہو چکی ہے   اورزید کی ملکیت سے نکل کر  اللہ تبارک وتعالی کی ملکیت میں  داخل ہو چکی ہے، لہذا زید اس جگہ کو اپنے استعمال میں نہیں لے سکتا ، جس مقصد یعنی مسجد کے لیے وقف کی ہے تو مسجد ہی بنانا ضروری ہے ، اور جو لوگ مسجد  کی تعمیرات کے کام میں مشکلات پیدا کر رہے ہیں تو ان کے لیے ہدایت کی دعا مانگی جائے اور قانونی راستہ اپنا کر دفاع کیا جائے۔

فتح القدیرمیں ہے:

"وعندهما: حبس العين على حكم ملك الله تعالى؛ فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد؛ فيلزم، ولا يباع ولا يوهب ولا يورث". 

(کتاب الوقف،6/ 203، ط، دار الفکر)

 فتاوی شامی میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع، أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به".  

( کتاب الوقف، 4/433، ط: سعید)

       فتاوی عالمگیری میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية".

(كتاب الوقف، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ،2/ 362، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144410100361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں