بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشت زنی سے غسل کے وجوب کا حکم


سوال

اگر کسی نے مشت زنی کرکے انزال روکا ، اور اس کو انزال کا مزہ پوری طور پر محسوس نہیں ہوا ،لیکن احتیاطاً  غسل کرلیا ،کچھ دیر بعد   منی نکلی ، تو کیا اس پر دو بارہ غسل واجب ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ  مشت زنی کرنا سخت ترین گناہ ہے، از روئے حدیث مشت زنی کا مرتکب شخص اللہ کی پھٹکار کا مستحق ہے، اور ایسے شخص کے بارے بہت سخت وعید وارد ہوئی ہے،لہذا اس گندے عمل سے توبہ اور آئندہ کے لیے اجتناب لازم ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جب انزال سے پہلے دبانے سے انزال نہیں ہوا اور احتیاطاً غسل کر لیا اور غسل کے  کچھ دیر  بعد قطرے بغیر شہوت کے نکلےتھے تو   اس سے غسل واجب نہیں ہواتھا،  لہذا دوبارہ غسل کرنا لازم نہیں تھا۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا ".

(شعب الإيمان - البيهقي، باب في تحريم الفروج و ما يجب من التعفف عنها، ج: ۴، صفحہ: ۳۷۸، رقم الحدیث: ۵۴۷۰، ط:  دار الكتب العلمية - بيروت) 

فتاوی شامی ہے:

"(وفرض) الغسل (عند) خروج (مني) من العضو وإلا فلا يفرض اتفاقا؛ لأنه في حكم الباطن (منفصل عن مقره) هو صلب الرجل وترائب المرأة، ومنيه أبيض ومنيها أصفر، فلو اغتسلت فخرج منها مني، وإن منيها أعادت الغسل لا الصلاة وإلا لا (بشهوة) أي لذة ولو حكما كمحتلم.

(قوله: من العضو) هو ذكر الرجل وفرج المرأة الداخل احترازا عن خروجه من مقره ولم يخرج من العضو بأن بقي في قصبة الذكر أو الفرج الداخل، أما لو خرج من جرح في الخصية بعد انفصاله عن مقره بشهوة فالظاهر افتراض الغسل. وليراجع".

(كتاب الطهارة ، فروع في الطهارة، ج: ۱، صفحہ: ۱۵۹ و۱۶۰، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101720

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں