بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشت زنی کی وجہ سے فاسد روزوں کا حکم


سوال

لا علمی کی وجہ سے میری ایک بری عادت بن گئی تھی، آن لائن بدنظری اور جلق ( مشت زنی)کی،یہ عادت دین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی ،یہ غلط  کام رمضان کے روزوں میں بھی کرتاتھا، اور یہ مسئلہ میرےبالغ ہونے کے بعد بھی کافی عرصہ چلتا رہا ، کئی رمضان میری عادت کی وجہ سے خراب ہوئے، اب کیا کروں؟ جب کہ مجھے بالغ ہونے کا پتہ نہیں ہے کہ کب بالغ ہواہوں، اورابھی میری عمر28سال ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  جتنے روزے مشت زنی کی وجہ سے فاسدہوگئے ہیں ،ان تمام روزوں کی صرف قضاکرنا ضروری ہے ،کفارہ نہیں ہے ،البتہ اگرفاسد کردہ روزوں کی تعدادمعلوم نہ توخوب غوروفکرکرکےروزوں کی تعداد متعین کریں ،جتنےروزوں کےمتعلق فساد کاگمان غالب ہوتواتنےروزوں کی قضاکریں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وكذا الاستمناء بالكف وإن كره تحريما لحديث ((ناكح اليد ملعون)).
مطلب في حكم الاستمناء بالكف (قوله: وكذا الاستمناء بالكف) أي في كونه لا يفسد لكن هذا إذا لم ينزل أما إذا أنزل فعليه القضاء كما سيصرح به وهو المختار كما يأتي."

(کتاب الصوم:باب مایفسد الصوم ومالایفسدہ،ج:2،ص:299،ط:سعید)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"والبلوغ يحصل إما بظهور علامة من علاماته الطبيعية كاحتلام الولد (أي الإنزال) ومجيء العادة الشهرية (الحيض) عند الأنثى، أو بتمام الخامسة عشرة عند جمهور الفقهاء غير أبي حنيفة لكل من الفتى والفتاة، وعليه الفتوى والعمل."

(أهليةالأداء:ج:4،ص:2966،ط:دارالفكردمشق)

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"(مادة 986) مبدأ سن البلوغ في الرجل اثنتا عشرة سنة وفي المرأة تسع سنوات ومنتهاه في كليهما خمس عشرة سنة. وإذا أكمل الرجل اثنتي عشرة سنة ولم يبلغ يقال له " المراهق " وإذا أكملت المرأة تسعا ولم تبلغ يقال لها " المراهقة " إلى أن يبلغا."

(الكتاب العاشر:الفصل الثاني،المسائل المتعلقة بالصغير...ص:190،ط:نور محمد كتبخابه كراتشي)

حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"خاتمة من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء."

(كتاب الصلاة:باب قضاء الفوائت،ص:447،ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101918

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں