بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ کمائی کی صورت میں قربانی کا حکم


سوال

مشترکہ گھرمیں بھائی  جوکمائی کرتےہیں اس میں  مشترکہ مال سمجھ کرقربانی والدیاوالدہ کےنام سےکردی جاتی ہے  کیایہ درست  ہے ؟حال آں کہ والدین کےپاس ذاتی رقم نہیں ہوتی، بیٹوں کادیاہواپیسہ ہوتاہے اوربیٹے پھرخود قربانی بھی نہیں کرتے۔

جواب

واضح رہے کہ ہر صاحبِ نصاب عاقل بالغ مسلمان کے ذمہ  قربانی کرنا واجب ہے، اگر ایک گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہوں تو ایک  قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی، بلکہ گھر میں رہنے والے ہر صاحبِ نصاب شخص پر الگ الگ قربانی کرنا لازم ہوگی، کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر مستقل علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ قربانی ایک عبادت ہے، لہٰذا دیگر عبادات (نماز ، روزہ، حج، زکاۃ ) کی طرح قربانی بھی ہر مکلف کے ذمہ الگ الگ واجب ہوگی۔

لہذا اگر تمام بھائی اپنی آمدنی لاکر والد یا والدہ کو مالک بناکر دے دیتے ہیں اور بیٹوں کی ملکیت میں نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت کے برابرنقد رقم، سونا چاندی یاضروریات سے زائد سامان وغیرہ نہیں ہے، تو اس صورت میں بیٹوں پر قربانی واجب نہیں۔اگرصرف  والد یا والدہ جس کی ملکیت میں نصاب کے برابر رقم موجود ہے تو اس پر قربانی واجب ہے۔

اور اگر بھائیوں میں سے کوئی صاحبِ نصاب ہے، یعنی جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر رقم یا زائد سامان موجود ہے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔ الغرض  جس جس شخص کے پاس نصاب کے برابر نقد رقم یا ضروریاتِ اصلیہ سے زائد سامان موجود ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔

حاصل یہ ہے کہ  گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہونے کی صورت میں تمام گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ گھر کے ہر صاحبِ نصاب فرد پر اپنی  اپنی قربانی کرنا یا حصہ ملانا واجب اور لازم ہے، گھر کے کسی ایک فرد کے قربانی کرنے سے باقی افراد  کے ذمہ سے  واجب قربانی ساقط نہیں ہوگی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں