بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ گھر کی تقسیم اور بيٹے كا اپنے والد كے ساته بد تميزي پر وعيديں


سوال

میں نے اپنی  بہن سے ایک کروڑ کا گھر خریدا ، جس میں دس لاکھ روپے بڑے بھائی نے تعاون کے طور پر ادا کیے،بیس لاکھ روپے میں نے اپنی گاڑیاں بیچ کر ادا  کیے، یہ گاڑیاں میں نے اپنے بیٹے کو صرف چلانے کے  لیے دی تھی،بیٹاسنبھال نہ  سکا ،میں نے واپس لے لی۔اور ستر لاکھ روپے میری بیوی نے  اپنی زمین بیچ کر ادا کیے،(میری بیوی کی زمین  تھی ،میں نے بیوی سے کہا کہ  گھر کے پیسے ادا کرنے ہیں، اور میں بیمار ہوں، بیوی نے یہ زمین   اپنے بھائی پر  فروخت کی، بھائی سے میں نے کہا کہ یہ  رقم اپنی بہن کےاکاونٹ میں ڈال دے، جس سے ہم نے گھر خریدا تھا،تو اس نے  بہن کے  اکاونٹ  میں ڈال دیے، اسی طرح ہمار باقی ستر لاکھ بھی ادا ہوگیا) یہ رقم بیوی نے بطور حصہ داری کے دی تھی  ۔  اب  بیٹے نے مجھے  گھر میں  اپنی بیوی کی باتوں کی وجہ سے مارا، بدتمیزی کی اور کہتا ہے کہ یہ گھر سارا میرا ہے، میری بیوی کا  انتقال ہوگیا ہے۔ ورثاء میں شوہر، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، شرعاً کیا حکم ہے؟

جواب

سوال میں مذکور  بیٹے کا  اپنے والد  کے  ساتھ رویہ اور سلوک  اگر  واقعے کے مطابق ہے تو  یقیناً  بیٹے کا یہ رویہ   اور سلوک ناجائز  اور حرام اور  کبیرہ گناہ ہے،  جس کا خمیازہ آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی بھگتنا پڑتا ہے، اس پر لازم ہے کہ  اپنے اس رویہ سے توبہ کرے،والد کے بڑھاپے میں ان کا سہارا بنے، جیساکہ بچپن میں وہ اسکا سہارا بنا تھا، اور مشقتیں اٹھا کر اس کو پالا تھا، اوروالد کی زندگی کو اپنے لیے سعادت کا باعث سمجھے۔ والدین  سےبد سلوکی پر احادیث میں سخت وعیدیں  وارد ہوئی  ہیں ۔

      حدیث میں ہے:                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                            

"عن أبي أمامة رضي الله عنه أن رجلًا قال: یا رسول الله! ما حق الوالدین علٰی ولدهما؟ قال: هما جنتك أو نارك."

(الترغيب والترهيب للمنذري،216/3،کتاب البر والصلۃ)

    ترجمہ:… “حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! والدین کا اولاد کے ذمے کیا حق ہے؟ فرمایا: وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں (یعنی ان کی خدمت کروگے تو جنت میں جاوٴگے، ان کی نافرمانی کروگے تو دوزخ خریدوگے)۔

”          ایک اور حدیث میں ہے:

’’عن ابن عباس رضی الله عنہما قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من أصبح مطیعًا لله فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من الجنّة وان کان واحدًا فواحدًا ومن أصبح عاصیًا لله فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من النّار ان کان واحدًا فواحدًا۔ قال رجل: وان ظلماہ؟ قال: وان ظلماہ وان ظلماہ وان ظلماہ.‘‘

(شعب الايمان، 306/10،مکتبۃ الرشد للنشر)

ترجمہ:… “حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص والدین کا فرمانبردار ہو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک، اور جو شخص والدین کا نافرمان ہو اس کے  لیے جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں، اور اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ: خواہ والدین اس پر ظلم کرتے ہوں؟ فرمایا: خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں، خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں، خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں۔

باقی مذکورہ گھر میں سائل کے بیان کے مطابق   20  لاکھ روپے سائل نے اپنی  گاڑیوں کو بیچ کر ادا  کیے ہیں اور  10 لاکھ روپے اس کے بھائی نےبطور تعاون کے   دیے ہیں اور  70لاکھ روپے  سائل کی بیوی نے  اپنی زمین بیچ کر بطور حصہ داری کی دیے  ہیں، تو ایسی صورت میں اس گھر کا 30 فیصد   حصہ  سائل کی ملکیت ہے، اور 70 فیصد حصہ سائل کی مرحومہ بیوی کا ترکہ  ہے ، جو  سائل سمیت اس کے تمام شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا۔

سائل کی بیوی کے حصہ کی تقسیم:

مرحومہ  کی  میراث اس کے ورثاء میں تقسیم کرنے  کاشرعی طریقہ یہ ہےکہ سب سے پہلے مرحومہ کے کل ترکہ سے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعداگر ان کے ذمہ کسی کا  قرض ہو   تو اس  کی ادائیگی کے بعد اگرانہوں نے  کوئی جائزوصیت کی ہو تو تہائی مال  میں  سے اس کو نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کو سولہ حصے کرکے  شوہر کوچارحصے،بیٹے  کو   چھ حصے جب کہ ہر بیٹی کو  تین    تین  حصے ملیں  گے۔ 

16/4     سائل کی بیوہ مرحومہ

شوہربیٹابیٹیبیٹی
13
4633

یعنی شوہر25 کو  فیصد،بیٹے کو 37.50فیصدجبکہ ہر بیٹی کو18.75 فیصد ملےگا۔

 رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

 "من أخذ شبرًا من الأرض ظلمًا، فإنه یطوقه یوم القیامة من سبع أرضین."

ترجمہ: جس نے ایک بالشت زمین   بھی  ظلما  قبضہ  کیا  تو قیامت کے دن وہ ساتویں زمین سے اپنے گردن پر لائے گا۔

 (صحیح البخاري، باب ما جاء في سبع أرضین۱؍۴۵۴رقم:۳۱۹۸،)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں