بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ گھر کا حصہ تقسیم سے قبل فروخت کرنا


سوال

ایک گھر میں دو بھائی آدھے آدھے شریک ہیں،  ایک بھائی اپنا حصہ بیچنا چاہتا ہے اور ظاہر ہے کہ اپنا حصہ الگ سے فروخت نہیں ہوسکتا ،پورا گھر ہی بیچا جاسکتا ہے ، دوسرا بھائی بیچنے پر راضی نہیں ہے اور بضد ہے کہ یہ گھر فروخت نہیں کرنا ،اب دوسرے بھائی کے لیے کیا حکم ہے؟ کیوں کہ اس کو پیسوں کی سخت ضرورت ہے،  جس کے لیے اس کو اپنا مکان بیچنا ہے۔

واضح رہے کہ مکان دو بھائیوں کے درمیان آدھا آدھا ہے ،یعنی دونوں بھائی پچاس پچاس فیصد کے مالک ہیں ،مگر گھر فروخت پورا ہوسکتا ہے، آدھا آدھا نہیں ہوسکتا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  دونوں شریک میں سے ہر ایک کو  اپنا مشترکہ حصہ فروخت کرنے کا حق حاصل ہے،دوسرے شریک کو فروخت کنندہ کو روکنے کا  حق شرعا حاصل نہیں، البتہ  فروخت کرنے کی صورت میں دوسرے  شریک کو بذریعہ شفعہ فروخت کنندہ شریک کے حصہ کو خریدنے کا حق حاصل ہوگا، باہم مشورہ سے حل نکالیں۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكاممیں ہے:

"[ (المادة ٢١٥) بيع الحصة المعلومة الشائعة بدون إذن الشريك]

(المادة ٢١٥) يصح بيع الحصة المعلومة الشائعة بدون إذن الشريك سواء كان المشاع قابلا للقسمة أو غير قابل عقارا أو منقولا ...  لأنه كما سيذكر في المادة ١١٩٢ لكل أن يتصرف في ملكه كما يشاء وهذا البيع من جملة التصرفات وعلى هذا كما يحق لأحد الشريكين أن يبيع العرصة المشتركة من شريكه فكذلك يحق له أن يبيع حصته من الأجنبي بدون إذن من شريكه وكما أن لمن يملك حصة في دار مشتركة أن يبيع حصته في تلك الدار مع عرصتها لشريكه فله أن يبيع هذه الحصة من الأجنبي ولشريكه حق الشفعة."

( الكتاب الأول البيوع، الباب الثاني في بيان المسائل المتعلقة بالمبيع، الفصل الثاني فيما يجوز بيعه وما لا يجوز، ١ / ١٨٩، ط: دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404102019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں