بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترک گھر کا حکم


سوال

ہمارا دو کمرے کا گھر ہے،ہمارے نام پر نہٰیں،گھر لینے میں میرے بھائی کے پیسے، والدہ مرحومہ کی 6 چوڑیاں، اور دادی کی ایک چین لگی ہے۔ ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں، سب سے چھوٹا بھائی 7 سال کا ہے، جو میری سوتیلی والدہ کا بیٹا ہے۔ والد ایک ہیں، میری چھوٹی  بہن چاچا کو  گود دی ہے، اس گھر میں کس کا کتنا حصہ ہے؟ کیا میری سوتیلی والدہ کا حصہ ہے؟  میرے والد کا ایک روپیہ بھی نہیں لگا گھر لینے میں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں گھر جس نے جتنی رقم لگا کر خریدا یا بنایا ہے، اس کی اتنی ملکیت ہے۔ البتہ اگر والدہ کا  یا دادی کا انتقال ہوگیا ہے، تو اب ان کا حصہ ان کے شرعی ورثاء میں ان کے حصص کے برابر تقسیم ہوگا ۔آپ کی سوتیلی والدہ نے رقم نہیں ملائی تو ان کا کچھ حصہ نہیں۔

الفتاوى الهندية (2/ 301):
"فشركة الجبر أن يختلط المالان لرجلين بغير اختيار المالكين خلطًا لايمكن التمييز بينهما حقيقةً بأن كان الجنس واحدًا أو يمكن التمييز بضرب كلفة ومشقة نحو أن تختلط الحنطة بالشعير أو يرثا مالاً". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144112200372

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں