بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترک گھر کے راستے میں اختلاف


سوال

چار بھائی تھے، ابتداء سے بھائی اول ملازم تھا، نیز علاقے میں تعلقات، اثر و رسوخ ان کا تھا، مگر ملازم ہونے کی وجہ سے وہ خود کاروباری ذمہ داری نہیں نباہ سکتے تھے، بھائی دوم نے ابتداء میں کچھ عرصہ کاروبار کیا، ہھر یہ ذمہ داریاں بھائی سوم کے حوالہ ہوگئیں، اور اس کا آپس میں معاہدہ بھی لکھا کہ کاروبار ہمارا مشترک ہوگا، اب گھریلو اور زمینوں وغیرہ کی ذمہ داری بھائی دوم اور بھائی چہارم نباہتے رہے، اور بھائی سوم کاروبار کی دیکھ بھال کرتا رہتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جو دیا بھائیوں نے رضامندی سے آپس میں تقسیم کرلیا، تقسیم کے وقت دکانوں کے راستے مشترک رکھنے پر اتفاق ہوا، اور مکانوں کے راستے کی وضاحت نہیں کی کہ مشترک ہوں گے یا نہیں؟ پھر بھائیوں نے مکان بنائے، بھائی دوم کا مکان اوپر کی طرف بنا، جس کا راستہ نقشہ میں دوسری طرف تھا، مگر سامنے دوسرے بھائیوں کے مکان تھے، اور راستہ ان کے مکانوں نیز مسجد سے بھی قریب تھا، اس لیے دروازہ اور پانی کی نکاسی اسی راستہ کی طرف رکھی، نیز اس راستہ پر بھائی دوم کی دس مرلہ جگہ بھی ہے، اب 14 سال کے عرصہ کے بعد بھائی سوم کہتا ہے کہ اس راستے میں آپ کا حق نہیں ہے، لہٰذا آپ یہ راستہ غرباً، جس طرف آپ کی دس مرلہ جگہ ہے، اس طرف استعمال کرسکتے ہیں، مگر شرقاً یہ راستہ آپ استعمال نہیں کرسکتے۔

بھائی دوم کا دعویٰ ہے مکانوں کی جگہیں شراکت کے زمانے میں خریدی تھیں، اس لیے جس طرح دکانوں کے راستے مشترک ہیں، اسی طرح مکانوں کے راستے بھی مشترک ہیں۔

اس مسئلہ میں وضاحت طلب امر یہ ہے کہ اتنا عرصہ بھائی دوم کا اس راستے کو استعمال کرنے بعد، کیا اب بھائی سوم اس کے اس حقِ مرور کا انکار کرسکتا ہے یا نہیں؟

وضاحت: دیگر بھائیوں کو بھائی دوم کے آنے جانے اورر استہ استعمال کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

وضاحت (2): بھائی سوم کے منع کرنے کی وجہ بھائی دوم کے ساتھ تعلقات کا خراب ہونا ہے، پچھلے 14 سال ان کے تعلقات صحیح تھے تو کوئی ممانعت یا جھگڑا وغیرہ نہیں تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب بھائیوں نے آپس میں بٹوارہ کیا تھا تو دکانوں کے راستے کے بارے میں یہ وضاحت کی تھی کہ راستے مشترک ہوں گے، البتہ تقسیم میں مکانوں کے راستوں سے متعلق کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی کہ مشترک ہوں گے یا علیحدہ، بلکہ 14 سالوں تک بھائیوں نے مکانوں کے راستے کو بھی مشترکہ طور پر استعمال کیا، لہٰذا اب بھائی سوم کا محض تعلقات خراب ہونے کی بناء پر بھائی دوم کو راستہ استعمال کرنے سے منع کرنا درست نہیں ہے، بھائیوں کو چاہیے کہ آپس کے جھگڑے کو صلح صفائی کے ذریعے سے ختم کریں، اگر صلح کے ذریعے سے معاملہ درست نہ ہوسکے تو بھائیوں کو چاہیے کہ آپس کی رضامندی سے راستوں کی تقسیم دوبارہ کریں، یہاں تک کہ ہر بھائی کو عمومی راستے تک نکلنے کا راستہ مل جائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌(قسم ‌ولأحدهم ‌مسيل ‌ماء ‌أو ‌طريق ‌في ‌ملك ‌الآخر و) الحال أنه (لم يشترط في القسمة صرف عنه إن أمكن وإلا فسخت القسمة) إجماعا واستؤنفت، ولو اختلفوا فقال بعضهم أبقيناه مشتركا كما كان إن أمكن إفراز كل فعل كما بسطه الزيلعي.

وفي حاشيتة: (قوله لم يشترط) أما لو اشترط تركهما على حالهما فلا تفسخ، ويكون له ذلك على ما كان قبل القسمة جوهرة (قوله واستؤنفت) أي على وجه يتمكن كل منهما من أن يجعل لنفسه طريقا ومسيلا لقطع الشركة.

بقي ما إذا لم يمكن ذلك أصلا وإن استؤنفت فكيف الحكم، والظاهر أنها تستأنف أيضا لشرط فيها فليراجع (قوله أبقيناه) المناسب لما في الزيلعي نبقيه. ونصه: ولو اختلفوا في إدخال الطريق في القسمة بأن قال بعضهم: لا يقسم الطريق بل يبقى مشتركا كما كان قبل القسمة نظر فيه الحاكم، فإن كان يستقيم أن يفتح كل في نصيبه قسم الحاكم من غير طريق لجماعتهم تكميلا للمنفعة وتحقيقا للإفراز من كل وجه، وإن كان لا يستقيم ذلك رفع طريقا بين جماعتهم لتحقق تكميل المنفعة فيما وراء الطريق اهـ."

(كتاب القسمة، ج: 6، ص: 263، ط: دار االفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں