میں ایک مشترکہ فیملی میں رہتا ہوں اور میں سب سے چھوٹا ہوں۔ میرے بڑے بھائی ہماری تمام مالی ضروریات اور اخراجات اٹھاتے ہیں، جب کہ والدین ضعیف ہیں۔
ہماری ایک مشترکہ دکان بھی ہے ، جس میں کبھی کبھار میں ڈیوٹی کرتا ہوں۔ چوں کہ مجھے بار بار اپنے بھائیوں سے پیسے مانگنے میں شرم آتی ہے، تو کیا میں اس دکان سے اپنے ذاتی خرچ کے لیے پیسے لے سکتا ہوں؟بغیر بھائیوں سے کچھ کہے؟
صورت مسئولہ میں مذکورہ دکان اگر والد کی ملکیت ہے ، اور بیٹۓ محض معاون کے طور پر کام کرتے ہیں ، یا یہ دکان بھائیوں نے مشترکہ سرمایہ سے قائم کی ہے ، اور سائل بھی کبھی کبھار دکان میں معاون کے طور پر کام کرتا ہے ، دونوں صورتوں میں سائل والد یا بھائیوں کی اجازت کے بغیر دکان سے رقم نہیں اٹھاسکتا ۔ سائل کو چاہیے کہ والد یا بھائیوں سے جیب خرچ کے لیے یا اجازت طلب کرلے یا اپنے لیے کوئی معاوضہ طے کروالے اور مقررہ معاوضہ لے لیا کرے ۔
المبسوط للسرخسي میں ہے :
«(ثم) الشركة نوعان: شركة الملك وشركة العقد. (فشركة الملك) أن يشترك رجلان في ملك مال، وذلك نوعان: ثابت بغير فعلهما كالميراث، وثابت بفعلهما، وذلك بقبول الشراء، أو الصدقة أو الوصية. والحكم واحد، وهو أن ما يتولد من الزيادة يكون مشتركا بينهما بقدر الملك، وكل واحد منهما بمنزلة الأجنبي في التصرف في نصيب صاحبه.»
(كتاب الشركة،ج:11،ص: 151،ط:دار المعرفة ، بيروت لبنان)
مجلة الأحكام العدلية میں ہے:
" لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه. لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادۃ: 97/96، ص: 27، ط: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609102443
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن