بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جُمادى الأولى 1446ھ 13 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ خاندان کی زکات کا حکم


سوال

میری اور بچوں کی تنخواہ ملا کر ہر ماہ تقریباً ایک لاکھ دس ہزار بنتی ہے، اور یہ سب خرچ ہو جاتے ہیں کچھ نہیں بچتا؛ کیوں کہ گیارہ افراد پر مشتمل فیملی ہے، اور سونا بہوؤں اور گھر کا ملا کر کوئی چار تولے بنتا ہے، اور چار لاکھ بینک میں ہے، کیا ان سب پر ماہانہ زکات  دے سکتے ہیں یا صرف سالانہ دینی ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ زکات آزاد، عاقل اور بالغ مسلمان  پر فرض ہے، اور ان  پر بھی اس وقت فرض ہوتا ہے جب یہ صاحبِ نصاب ہوں، صاحبِ نصاب سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اپنی ضروریات سے زائد اتنی نقدی  یا مالِ تجارت  ہو جو  ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  سائل کا گھرانہ جو گیارہ افراد پر مشتمل ہے،  میں سے جو نابالغ ہیں ان پر تو سرے سے زکات ہے ہی نہیں، اور جو عاقل، بالغ تو ہیں، لیکن صاحبِ نصا ب نہیں ان پر بھی زکات نہیں ہے، البتہ جو عاقل، بالغ بھی ہیں اور صاحبِ نصاب بھی  ان پر سال گزرنے کے بعد ڈھائی فیصد زکات لازم ہے۔

صاحبِ نصاب بننے کے لیے  سونے کا ساڑھے سات تولہ ہونا اس وقت ضروری ہے جب کہ کسی کی ملکیت میں صرف سونا ہو، اس کے ساتھ بنیادی ضرورت سے زائد نقدی، چاندی یا مالِ تجارت میں سے کچھ بھی نہ ہو، اگر سونے کے ساتھ بنیادی ضرورت سے زائد نقدی، چاندی یا مالِ تجارت میں سے کچھ ہو،  یا سونے کے علاوہ مذکورہ تینوں اموال (چاندی، نقدی، مالِ تجارت) میں سے کوئی ایک یا دو یا تینوں کا مجموعی ہو یا سونے سمیت چاروں اموال میں سے کچھ کچھ موجود ہو تو   چاندی کے نصاب کا اعتبار ہوگا، اور ان کے مجموعے  کی قیمت اگر چاندی کے نصاب تک پہنچ گئی تو زکات واجب ہوگی،   مثال کے طور پر کسی کے پاس سونا اور چاندی یا سونا یاچاندی کے ساتھ ضرورت سے زائد نقدی بھی ہے، لیکن ان کے نصاب سے کم ، جیساکہ دو تولہ سونا ہے اور ضرورت سے زائد کچھ رقم بھی ہے تو اب اس دو تولہ سونا اور ضرورت سے زائد رقم کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت  کے برابر یا اس سے زیادہ ہوگا تو  یہ شخص بھی صاحبِ نصاب شمار ہوگا اور اس پر اس مجموعے کی ڈھائی فیصد زکات لازم آئےگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرط افتراضها عقل وبلوغ وإسلام وحرية)....(قوله عقل وبلوغ) فلا تجب على مجنون وصبي لأنها عبادة محضة وليسا مخاطبين بها......(قوله وإسلام) فلا زكاة على كافر لعدم خطابه بالفروع سواء كان أصليا أو مرتدا......(قوله: وحرية) فلا تجب على عبد، ولو مكاتبا أو مستسعى لأن العبد لا ملك له".

(كتاب الزكاة، 158/2-159، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال مضروبا كان أو لم يكن مصوغا أو غير مصوغ حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة كذا في الخلاصة."

(كتاب الزكاة وفيه ثمانية أبواب،‌‌ الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة والعروض وفيه فصلان ، الفصل الأول في زكاة الذهب والفضة، 178/1، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو ضم أحدهما إلى الآخر حتى يؤدى كله من الفضة أو من الذهب فلا بأس به عندنا ولكن ‌يجب ‌أن ‌يكون ‌التقويم بما هو أنفع للفقراء رواجا."

(كتاب الزكاة، فصل أموال التجارة، 20/2، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100953

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں