بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عاقد كا دوسرے کی طرف سے وكيل بننا (ايک ہی شخص کا بائع اورمشتری بننا)


سوال

ہم چار بندے ایک شوروم میں مشترکہ  کاروبار کرتے ہیں ،نفع و نقصان میں شریک ہیں ،اب پوچھنا یہ ہے کہ میں ذاتی رقم سے اپنے لیے نقد پر گاڑی انفرادی طور پر خرید لوں ،پھر وہی گاڑی قسطوں پر اپنے اور اپنے شرکاء کیلیے خریدوں  مشترکہ طور پر،تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی نقطہ نظرسے   ایک ہی شخص بائع اورمشتری دونوں نہیں بن سکتا۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"‌و أما البيع فالواحد فيه إذا كان وليا يقوم بطرفي العقد، كالأب يشتري مال الصغير لنفسه، أو يبيع مال نفسه من الصغير، أو يبيع مال ابنه الصغير من ابنه الصغير، أو يشتري، إلا أنه إذا كان وكيلا لا يقوم بهما؛ لأن حقوق العقد مقتصرة على العاقد، فلا يصير كلام العاقد كلام الشخصين؛ ولأن حقوق البيع إذا كانت مقتصرة على العاقد وللبيع أحكام متضادة من التسليم والقبض والمطالبة، ‌فلو ‌تولى ‌طرفي ‌العقد لصار الشخص الواحد مطالبا ومطلوبا ومسلما ومتسلما وهذا ممتنع - والله عز وجل أعلم."

(بدائع الصنائع ، كتاب النكاح ،فصل شرائط الركن أنواع منها شرط الانعقاد ، 2/232 ط:دارالكتب العلمية)

لہذاصورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل خودبائع بھی ہے اوراوردوسرے شرکاء کی طرف سے وکیل بن کرمشتری بھی ہے، اس لیےسائل کاذاتی رقم سےاپنےلیےگاڑی خریدکراسی  گاڑی کو اپنےاوردوسرے شرکاء کےلیےخریدناجائزنہیں ہے۔

البتہ  اس  کی  جائز صورت یہ ہو سکتی ہے  کہ سائل گاڑی خریدکراپنے قبضے میں لے لے، اس کےبعدگاڑی کےایک حصہ کواپنے پاس رکھ کربقیہ تین حصے قسطوں پراپنے دیگرشرکاءپر فروخت کردے ، اس طرح دیگرشرکاءبھی  اس گاڑی میں شریک ہوں گے ۔

فتاوی شامی ميں هے:

"(ومن اشترى عبدا) مثلا (فقال له آخر: أشركني فيه فقال فعلت ، إن قبل القبض لم يصح، وإن بعده صح ولزمه نصف الثمن، وإن لم يعلم بالثمن خير عند العلم به۔

وفي الرد:(قوله إن قبل القبض لم يصح) قال في الفتح: اعلم أن ثبوت الشركة فيما ذكرنا كله ينبني على صيرورة المشتري بائعا للذي أشركه وهو استفاد الملك منه، فانبنى على هذا أن من اشترى عبدا فلم يقبضه حتى أشرك فيه رجلا لم يجز؛ لأنه بيع ما لم يقبض، ولو أشركه بعد القبض ولم يسلمه إليه حتى هلك لم يلزمه ثمن، ويعلم أنه لا بد من قبول الذي أشركه؛ لأن لفظ أشركتك صار إيجابا للبيع. اهـ.

قلت: ومثله قوله في الذخيرة: اشترى شيئا ثم أشرك آخر فيه فهذا بيع النصف بنصف الثمن الذي اشتراه به. اهـ. ومقتضاه أنه يثبت فيه بقية أحكام البيع من ثبوت خيار العيب والرؤية ونحوه، وأنه لا بد من علم المشتري بالثمن في المجلس، وهو خلاف المتبادر من قول المصنف وإن بعده صح إلخ فتأمل. (قوله: ولزمه نصف الثمن) بناء عن أن مطلق الشركة يقتضي التسوية قال الله تعالى: - {فهم شركاء في الثلث} [النساء: 12]- إلا أن يبين خلافه فتح۔"

(ردالمحتار علی الدر المختار ، كتاب الشركة ، فصل في الشركة الفاسدة ، 328.329/4ط:سعيد)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100443

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں