بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ذو القعدة 1445ھ 20 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ کاروبار کی آمدن میں سے شریک کے بیٹوں کا مال لینے کا حکم


سوال

ہمارا رکشے پارٹس کا کام ہے، میرے پانچ چچا ہیں، اور ہماری جوائنٹ فیملی ہے تو کاروبار بھی جوائنٹ ہے، میرے کزن کاؤنٹر سے میرے ابو اور چچا کے اجازت کے بغیر پیسے لیتے ہیں تو ان پیسوں کے بارے میں رہنمائی کریں؟آیا وہ رقم ان کے لیے  حلال ہے یا حرام؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کاروبارسائل کے والد اور ان کے بھائیوں یعنی سائل کے چچاؤں کا مشترکہ ہیں، تو چچاؤں کے بیٹوں کا بڑوں کی اجازت کےبغیر کاؤنٹر سے پیسے اٹھانا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اس رقم کا واپس کرناان پر  ضروری ہے،البتہ اگر تمام شریک  جتنی رقم انہوں نے اٹھائی ہے بخوشی  معاف کرلیں یا کوئی ایک شریک مثلاً اس کزن کے والد اپنے حساب میں شمار کرلیں اور شرکاء باہمی رضامندی سے اس کا کوئی ضابطہ مقرر کردیں تو اس صورت میں جتنا مال انہوں نےاب تک  استعمال کیا ہوگاوہ حلال ہوجائے گا،لیکن آئندہ  اس طرح  اجازت کے بغیر پیسے لينے سے اجتناب کریں۔   

حدیث شریف میں ہے:

"ألا لاتظلمواألالايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه۔"

(مشکوٰۃ المصابیح،باب الغصب والعاریۃ،ج:1،ص:261، ط: رحمانیہ)

قواعد الفقہ میں ہے:

"لا یجوز التصرف فی ملک الغیر  بغیر اذنہ۔"

(قواعد الفقہ، ج:1،ص:110،ط: صدف پبلشرز)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"أما تفسيره شرعا فهو أخذ مال متقوم محترم بغير إذن المالك على وجه يزيل يد المالك إن كان في يده أو يقصر يده إن لم يكن في يده كذا في المحيط."

( کتاب الغصب ۔۔۔ج:5،ص:119،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں