بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کی خریداری میں بیوی کے ساتھ تعاون کےلیے رقم ملاکر بعد میں اس میں حصہ کا مطالبہ کرنا


سوال

  میری بیوی نے 2016 میں اپنے بھائیوں کے تعاون سے  ایک فلیٹ  22،60000 روپوں میں اپنے  نام پر  خریدا تھا ،جس کے لیے میں نے اپنی بساط کے مطابق 570000 روپے فلیٹ خریدنے کے لیے دیے تھے ،فلیٹ خریدتے وقت ایسی کوئی بات میری ان سے نہیں ہوئی کہ  میرا اس میں اتنے فیصد شیئر ہوگا ،بلکہ میری طرف سے رقم ملانے میں مقصود یہ تھا، کہ مستقبل میں یہ فلیٹ بچوں کے کام آئے، فلیٹ خریدنے کے فورا بعد اسے کرائے پر دے دیا تھا ،اس وقت سے لے کر آج تک اس کا کرایہ میری بیوی خود لے رہی ہے ،اب پچھلے ایک سال سے میرے اور میری بیوی کے درمیان علیحدگی حاصل کرنے یا نہ کرنے کا تنازعہ چل رہاہے ،ہمارے دوبیٹے اور ایک چھوٹی بیٹی ہے ،میں نے میری بیوی اور ساس سسر سے درخواست کی ہے :کہ فلیٹ بیچ کر میری طرف سے فلیٹ خریدنے کے لیے دی ہوئی رقم کے تناسب سے فلیٹ کی جس قیمت میں فروخت ہوا ،اور فلیٹ کا کرایہ جتنا اس عرصہ میں حاصل ہوا، دونوں کا ٹوٹل کرکے مجھے میرے حصے کی رقم دے دی جائے ،کیا میری یہ بات شریعت کے مطابق درست ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ فلیٹ 2260000میں خریدا اور سائل نے اس کی خریداری میں جو 570000 روپے دیے ،اس میں اس فلیٹ میں حصہ داری کی کوئی بات طے نہیں کی تھی ،بلکہ مستقبل میں بچوں کے کام آنے کے خیال کے تحت شامل کی تھی ، تو مذکورہ فلیٹ بیوی کی ملکیت شمار ہوگا،اور جو رقم سائل نے ملائی، وہ سائل کی طرف سے تبرع شمار ہوگی ،لہذا اب سائل کا اس میں اپنے لیے حصہ کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ۔

العقود الدرایہ میں ہے:

"وفي العمادية من أحكام السفل والعلو ‌المتبرع ‌لا ‌يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(كتاب المداينات، ج:2، ص:226، ط:دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں