بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ باغ میں ایک شریک کا دوسرے شریک کی طرف سے عشر ادا کرنے کا حکم


سوال

ایک باغ ہے جس کا تیسرا حصہ ایک بیوہ کا ہے، بیوہ خرچ وغیرہ نہیں دیتی اور صرف اپنا حصہ مانگتی ہے،  اس سال باغ 9 لاکھ کا فروخت ہوا اور مشین کے اخراجات بھی اسی میں  ہیں۔ اب میں زکوۃ نکالوں تو شرعاً اس بیوہ کی طرف سے زکوۃ نکال سکتا ہوں یا نہیں؟ میں نے جتنا بھی مشین پر خرچہ کیا ہے اس بیوہ نے مجھے ایک روپے بھی نہیں دیا ہے اور مشین پر اب بھی 20 لاکھ قرض ہے۔

جواب

واضح رہے کہ زمین اور باغ پر عشر لازم ہوتا ہے، اور عشر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پیداوار کی کٹائی کے بعد ہونے والے اخراجات منہا کرنے کے بعد  زمین (چاہے باغ ہو یا کھیت)  اگر ایسے پانی سے سیراب کیا جاتا ہو  جس میں خرچہ آتا ہو  (مثلاً ٹیوب ویل وغیرہ کے ذریعے) اس میں  نصفِ عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ (%5) دینا واجب ہوتا ہے، اور اگر خرچہ نہ آتا ہو تو اس میں عشر (دسواں حصہ یعنی ٪10) دینا ضروری ہوتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل  باغ  کی پیداوار کا بیسواں حصہ اگروہ باغ ایسے پانی سے سیراب کیا جاتا ہو  جس میں خرچہ آتا ہو ،  اور اگر ایسے پانی سے سیراب کیا جاتا ہو جس میں خرچہ نہ آتا ہو تو دسواں حصہ ادا کرے، نیز اس میں چوں کہ پیداوار کے حساب سے ادا کرنا پڑتا ہے تو جو جتنے حصے کا مالک ہے، اسی تناسب سے اس کی پیداوار میں سے مالیت لی جائے گی۔ اور قرض دار ہونے سے عشر ساقط نہیں ہوتا بل کہ بہ ہر صورت ادا کرنا ہوتا ہےچاہے پیداوار کم ہو یا زیادہ،نیز اس بیوہ کی طرف سے سائل عشر نہیں نکال سکتا۔

الدر المختار  میں ہے:

"(و) تجب في (مسقي سماء) أي مطر (وسيح) كنهر (بلا شرط نصاب) راجع للكل (و) بلا شرط (بقاء) وحولان حول لأن فيه معنى المؤنة ولذا كان للإمام أخذه جبرا ويؤخذ من التركة ويجب مع الدين وفي أرض صغير۔۔ (و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة."

(باب العشر، 2/ 328، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و لا يحتسب لصاحب الأرض ما أنفق على الغلة من سقي، أو عمارة، أو أجر الحافظ، أو أجر العمال، أو نفقة البقر."

(كتاب الزكاة، 2/ 62، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101155

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں